کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 39
عادل حکمران (59) انسٹھ برس کی مختصر زندگی گزارنے کے بعد بالآخر 29 جمادی الاخری 1307 ہجری بمطابق 20 فروری 1890ء کو اس جہان فانی سے جہان ابدی کے لیے چلا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون مولانا ذوالفقار احمد بھوپالی آپ کے سفر آخرت کے ضمن میں رقم طراز ہیں: ’’شیخنا المرحوم کی آخری تالیف کتاب ’’مقالات الاحسان‘‘ ہے، یہ کتاب ترجمہ ہے فتوح الغیب کا جو کہ سیدنا و مولانا حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی تالیف ہے جب اس کا طبع ہونا شروع ہوا تو میں نے اور انہوں نے اس کا مقابلہ کیا، جب صحت نامہ کا وقت آیا تو وہ بیمار تھے، میں نے اور ایک اور شخص نے اس کا مقابلہ ان کے روبرو کیا، مرض استسقاء ہو گیا تھا، نہایت درجہ ایذاء ہوئی مگر بڑے مستقل مزاج تھے۔ وفات کے وقت تک استقلال رہا، ہر اس اور بے صبری کا کلمہ ہرگز زبان سے نہیں نکلا، ایام بیماری میں شب کو میں ان کے پاس رہتا تھا۔ رات کو نیند نہیں آتی تھی اور نہ لیٹا جاتا تھا۔ پلنگ پر قبلہ رخ بیٹھے رہتے، سامنے تکیہ رکھ لیتے تھے، اس پر سر رکھ لیا کبھی اٹھا لیا، اسی طرح ساری رات بسر ہوتی تھی، اکثر يا ارحم الراحمين کہتے تھے۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے لکھنے کی طاقت نہیں تھی مگر علم کا شوق وہی، مجھ سے کہا بھائی تم آخر اور جگہ بیٹھ کر لکھتے ہو ہمارے سامنے ہی لکھا کرو، میں اس وقت ’’مرأۃ النسواں‘‘ لکھتا تھا، پس میں نے ان کے روبرو لکھنا شروع کیا۔ ظہر سے عصر تک ان کے کمرے میں لکھتا پھر گھر جاتا، بعد عشاء کے پھر آ جاتا تھا تو رات کو بھی چراغ کے روبرو بیٹھ کر ان کے سامنے لکھتا تھا۔ اس سے ان کو انس ہوتا، اس اثناء میں باتیں بھی کرتے جاتے تھے، کئی دنوں سے اسی طرح ہوتا تھا، کبھی فرماتے بھائی آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو مثل دوا کے کہ جب بیمار ہوں تو ان کی حاجت ہو اور ایک مثل غذا کے کہ کسی حالت میں اس سے چارہ نہیں ہے، میری یہی مثال ہے۔ غرض یہ کہ چہار شنبہ بست و نہم (29) ماہ جمادی الآخر 1307 ہجری کو ناگاہ جی میں آیا کہ آج 3 بجے سے ان کے پاس جاؤں۔ چنانچہ جلدی سے کھانا کھا کر ان کے پاس حاضر