کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 38
اخلاق رذیلہ سے نفرت: نواب صدیق حسن مرحوم غیبت، چغلی، لغویات، کذب بیانی، دغا و فریب، خوشامد اور حسد ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں تھے اور ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور جاہلوں کی مجلس انہی رذائل کی بناء پر اختیار نہ کرتے۔ آپ کسی آدمی سے بھی کسی دینی دنیوی فضیلت پر حسد نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی کی خوشامد کرتے تھے اور ﴿نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ کے تحت انعامات الٰہیہ کی تقسیم پر شاکر و قانع تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’کسی نے میرا حصہ تو نہیں چھینا کہ اس پر حسد کروں اور جو کسی دوسرے کی قسمت میں ہے وہ بھی مجھے ہرگز نہیں مل سکتا پھر حسد چہ؟ ہاں سلف و خلف میں جو اہل و فضل و تقویٰ ہیں ان کے تراجم احوال سے مطلع ہو کر یہ رشک ضرور ہوتا ہے کاش! یہ فضائل و خصائل مجھے بھی ملتے، مجھے بھی ان جیسا علم نصیب ہوتا۔ میں بھی ویسا متقی اور عابد و زاہد ہوتا جیسے وہ لوگ تھے یا جو شخص مالِ حلال سے سخاوت کرتا رہا ہو اس پر رشک آتا ہے کہ اگر مجھے دسترس ہوتی تو میں بھی راہِ اللہ میں اسی طرح ایثار سے کام لیتا اور مال خرچ کرتا۔ اہل اللہ سے محبت: آپ اہل اللہ سے بڑی گہری اور دلی محبت رکھتے تھے اور ’’المرء مع من احب‘‘ کی رو سے سمجھتے تھے کہ محبت محب کو محبوب تک پہنچا دیتی ہے۔ اس لیے آپ تمام صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم، تابعین، ائمہ مجتہدین، محدثین، فقہاء و صوفیاء و صالحین سے شدید محبت رکھتے تھے اور خواہش کرتے تھے کہ کاش مجھے ان کی صحبت نصیب ہوتی۔ اسی طرح آپ اہل فسق سے نفرت کرتے تھے اور ابن الدنیا کی صحبت سے کنارہ کشی اختیار کرتے تھے۔ آپ اہل اللہ کی محبت اور ان کی سیر و سوانح کو اپنے لیے مشعل راہ اور اعمال صالحہ و دینی کاموں کے لیے باعث ہمت و حوصلہ خیال کرتے تھے اور اپنی اس محبت کو آخرت میں نافع گردانتے تھے۔ وفات علم و عمل کا یہ عظیم نمونہ، تصنیف و تالیف کا نامور سرخیل، اخلاق حسنہ کا پیکر جمیل، جید مدرس، مثالی مفسر، بہترین ادیب و شاعر، قرآن و حدیث کا بے مثال داعی اور ریاست بھوپال کا