کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 37
’’مجھ پر حالت رجاء کی بہ نسبت حالت خوف کا غلبہ رہتا ہے لیکن اس میں عیب کی کوئی بات نہیں کیونکہ خوف کا نتیجہ بہت کم ظاہر ہوتا ہے لیکن رجاء بعض اوقات یا اس میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ یہ خوف گویا اشتہائے کاذب ہے اور رجاء گویا جراءت نالائق ہے۔ خوف ہوتا تو برستے ہوئے مینہ کی طرح، یہ لگاتار گناہ کیوں ہوتے۔ پھر دل کے گناہ الگ ہیں، وہ سب 66 ہوتے ہیں اور بدن کے گناہ الگ ہیں وہ سب 104 ہیں۔ اگرچہ میں یہ نہیں کہتا کہ میں رات دن یہ سارے گناہ کرتا رہا ہوں لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجھ سے صغائر و کبائر یقیناً سرزد ہوئے ہیں۔ بعض وہ ہیں جن کو میں جانتا ہوں اگرچہ میں نے ان سے توبہ کر لی ہے۔ قبول و عدم قبول کا حامل اللہ تعالیٰ ہی جانے۔ بعض وہ ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں، میں ان کو نہیں جانتا یا بھول گیا ہوں۔ ہر چند ان سے بھی توبہ کرتا ہوں لیکن عقاب، حساب اور عتاب وغیرہ کا خوف لگا رہتا ہے۔ اس لیے کہ محض رجاء مرجیہ کا مذہب ہے اور محض خوف خوارج کا۔ مومن کو چاہیے کہ خائف اور راجی ہو۔ حیات میں خوف غالب رہے اور موت کے وقت رجاء و حسن ظن غالب آ جائے لیکن محض تمنا سے نہیں بلکہ ظہور ثمرات کے اعتبار سے۔‘‘ عمرك بالحمية افنيته خوفا من البارد و الحار وكان اولي لك ان تتقي من المعاصي حدر النار ’’انسان چاہے تو اپنے نفس کی دونوں حالتوں کا امتحان کر سکتا ہے، اگر ہر ساعت میں محاسبہ نفس نہ کر سکے تو صبح و شام محاسبہ کرنے سے تو کوئی امر مانع نہیں ہے جس کا حساب اس جگہ پاک ہے اسے وہاں محاسبہ کا کچھ باک نہیں ہے۔‘‘ آپ کو دنیا سے محبت نہیں تھی بلکہ ترکِ دنیا کو پسند فرماتے تھے اور اس کوشش میں رہتے تھے کہ دنیا کے مال و متاع اور دنیا کی جھوٹی عزتیں نہ ہی ملیں لیکن اگر دنیا کا مال ملے تو صرف قوت لا یموت ملے۔