کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 36
ادعیہ مسنونہ کے سختی سے پابند تھے۔ نماز تہجد کے وقت بیدار ہوتے۔ خصوصاً رمضان المبارک میں ضرور بارہ رکعت نماز تہجد ادا کرتے، دن رات کے معمولات میں بھی مسنون دعاؤں کا رد کرتے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، گھر داخل ہونے، نکلنے، بیت الخلاء آنے جانے اور کپڑے پہننے تک کی دعائیں پڑھا کرتے تھے۔ رات کو سونے سے پہلے تسبیح فاطمہ، آیت الکرسی، سورۃ فاتحہ، چار قل، سید الاستغفار، کلمہ توحید و تمجید پڑھتے اور اپنی خطاؤں سے توبہ و تائب ہو کر سوتے تھے اور یہ تصور رکھتے تھے کہ نیند میں روح، جسم سے آسمان کی طرف چڑھتی ہے۔ اگر ظاہری و باطنی طہارت پر نیند آئی ہو تو اسے اللہ کے سامنے سجدہ کی اجازت ملتی ہے اور اگر ظاہری و باطنی طہارت کے بغیر خواب استراحت میں چلے گئے تو نیند کو دربار الٰہی میں داخل ہونے سے روک لیا جاتا ہے اور اسے سجدہ کی اجازت نہیں ملتی اور گنہگار ٹھہرتی ہے۔ گناہ سے نفرت اور توبہ و استغفار کی کثرت: آپ گناہ سے بڑے نفور تھے اور گناہ صغیر و کبیرہ، دونوں سے بچنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی فقیہ کے قول یا ضعیف روایت یا کسی حیلہ و تاویل کو ڈھونڈنے اور اسے پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ اس عمل کو نہایت ناپسندیدگی سے دیکھتے اور اسے عذر گناہ بدتر از گناہ سمجھتے تھے۔ گناہ ہونے کے بعد استغفار کرنا آپ کا معمول تھا بلکہ اکثر توبہ و استغفار کے الفاظ ماثورہ آپ کی زبان پر رہتے کیونکہ آپ کے نزدیک گناہ کے بعد توبہ فی الفور واجب ہو جاتی ہے اور گناہ کے بعد توبہ نہ کرنا ایک دوسرا گناہ ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ایک انسان ایک گناہ بار بار کرتا ہے تو اسے ہر بار گناہ سے توبہ کرنی چاہیے کیونکہ ہر گناہ کے ساتھ توبہ و استغفار کی توفیق ملنا ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ کی مصداق ہے۔ اسی طرح آپ کے خیال میں زیادہ استغفار کرنے سے گناہ کم ہو جاتے ہیں اور انسان گناہ ترک کر دیتا ہے۔ نواب مرحوم اپنے گناہوں پر بہت روتے تھے اور خوف الٰہی سے لبریز رہتے ہوئے، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے تھے اور مومن کی حالت کو خوف و رجاء کے بین بین تصور کرتے تھے اور صرف خوف یا صرف رجاء کے مخالف تھے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: