کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 32
جس کی بناء پر انہیں پابند سلاسل کیا گیا اور ان کی املاک لوٹ لی گئیں اور ان کے موروثی مکتبہ کو جس کی کتابوں کی قیمت کئی لاکھ روپے تھی جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ آپ 1285ھ کو فوت ہوئے۔ شیخ حسین بن محسن السبیعی الانصاری: آپ کا نام الشیخ الامام العلامۃ المحدث القاضی حسین بن محسن السبیعی الانصاری ہے۔ آپ کی نسبت آپ کے جد اعلیٰ تقی الدین ابن سبیعی الانصاری کی طرف ہے۔ حدیدہ شہر میں 1245 ہجری میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قرآن مجید اپنے والد کی زندگی میں پڑھ لیا تھا تو پھر علم نحو و صرف، فقہ پڑھی اور علوم حدیث میں امتیاز حاصل کیا۔ علامہ سلیمان بن محمد نے ان کو خصوصی اجازت تفویض کی پھر آپ مکہ مکرمہ چلے گئے۔ وہاں حافظ محمد بن ناصر الحازمی کی شاگردی اختیار کی، وہاں سے بھی علمی اجازت حاصل کی پھر آپ چار سال تک ملک یمن کے ایک شہر میں جج کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ قرآن و سنت کے ساتھ شدید تمسک کی وجہ سے اور بعض امراء کے خلاف فتویٰ دینے کی وجہ سے آپ کو معزول کر کے ترک وطن پر مجبور کر دیا گیا۔ لہٰذا آپ سکندر بیگم کے دور میں بھوپال واپس آ گئے۔ ان کے متعلق ان کے شاگردِ عزیز نواب صدیق حسن لکھتے ہیں کہ: ’’یہ ہمارے جدید علوم کے استاذ تھے، میں نے ان سے چھ معتبر کتابیں اور کچھ دیگر کتابیں پڑھی ہیں اور آپ نے مجھے ان کے متعلق کامل اور عمومی اجازت عنایت فرمائی۔ ان کی اجازت کی تحریر اب بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ آپ 1326 ہجری کو فوت ہوئے۔ شیخ عبدالحق بنارسی: عبدالحق بن فضل اللہ بنارسی اپنے دور کے مشہور عالم ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ حج بیت اللہ کے بعد یمن گئے اور صنعاء میں قاضی محمد بن علی الشوکانی اور دیگر علماء سے تحصیل علم کیا اور ان سے علمی اجازت لے کر 1238 ہجری کو واپس آئے، سات بار حجاز کا سفر کیا اور 1287 ہجری کو منیٰ میں حالت احرام میں وفات پائی اور مسجد خیف کے دروازے کے سامنے دفن ہوئے۔