کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 31
(3) رئیسہ عالیہ کو پردہ نشین بنا کر مدد دہی رئیسہ کے نام سے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لینا۔ (4) جاگیرات کی ضبطی (5) سختی بندوبست (6) نواب قدسیہ بیگم صاحبہ کو رئیسہ عالیہ کا مخالف کرنا۔ (7) رئیسہ عالیہ اور نواب ولی عہد میں نا موافقت پیدا کرنا۔ اور یہ رسم انتزاع 17 ذیقعدہ 1302 ہجری، 28 اگست 1885ء کو عمل میں آئی۔ شیوخ و اساتذہ نواب صدیق حسن رحمہ اللہ نے اپنے زمانہ کے نامور اہل علم سے تعلیم حاصل کی اور ان سے متداول علوم صرف و نحو، لغت و ادب اور علوم قرآن و سنت حاصل کیے۔ ان اساتذہ میں سے چند چیدہ اور مشہور ترین درج ذیل ہیں۔ مفتی محمد صدر الدین خاں آزردہ صدر الصدور: آپ کا اصل وطن کشمیر تھا، دہلی میں 1204 ہجری میں پیدا ہوئے، آزردہ کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ ابتدائی علوم اپنے والد سے پڑھے اور ادب عربی، بیان، فقہ، اصول فقہ، تفسیر وغیرہ شاہ عبدالعزیز دہلوی سے اور علوم حدیث، کتب رجال، منطق اور فلسفہ وغیرہ دیگر اساتذہ سے حاصل کیے۔ صاحب نزہۃ الخواطر لکھتے ہیں: ’’یہ اپنے زمانہ کے ہر علم کے ماہر اور خصوصاً ادبی فنون میں یدطولیٰ رکھتے تھے، جب ان سے کسی بھی فن کے بارے میں سوال کیا جاتا تو دیکھنے اور سننے والا یوں سمجھتا کہ اس فن کو ان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہو گا۔ اس بناء پر علماء کے خیال میں یہ علمی طور پر منفرد عالم تھے۔ شعراء کا خیال ہے کہ شاعری کے علم کے یہی علمبردار ہیں۔ امراء فیصلے کے لیے انہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ نواب صدیق حسن نے ان سے بعض کتب میں استفادہ کیا اور حکومت برطانیہ نے 1827ء میں ہندوستانی حکومت میں ان کو دہلی کا مفتی عام اور صدر الصدور کا منصب عطا کیا۔‘‘ 1857ء کی جنگ آزادی میں ان کے فتویٰ سے انگریز کے خلاف جہاد میں تیزی آئی