کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 30
گھڑت الزامات اور شکایات لگانا شروع کر دیں اور ان الزامات کے ثبوت کے لیے آپ کی ہدایت السائل، اقتراب الساعۃ، ترجمان وہابیہ وغیرہ ایسی تصنیفات و تالیفات اور آپ کے توحید و سنت سے مزین مواعظ حسنہ وغیرہ کو پیش کیا جن کی روشنی میں انگریزی حکومت نے 21 مارچ 1881ء کو آپ پر ترغیب جہاد اور وہابیت کے پرچار کا الزام لگا کر آپ پر پابندیاں عائد کر دیں اور بعد ازاں 1885ء میں آپ پر باغیانہ تقریر و تحریر کے الزامات عائد کر کے آپ کو 28 اگست 1885ء کو تمام مناصب اور خطابات سے معزول و برخاست کر دیا۔ اس صورت حال کو امام ابو یحییٰ خاں نوشہروی ان الفاظ کے ساتھ قلمبند کرتے ہیں: ’’آخر جناب، والا جاہ نواب صدیق حسن خاں صاحب کی علمی سرگرمیوں پر برادرانِ دین نے حسد کیا، جاہ و مرتبہ، خویش و اقارب کو ناپسند آیا، عام مسلمانوں میں حضرت کا یہ وقار گورنمنٹ عالیہ کی نظر میں خار ہوتا گیا۔‘‘ گرا جو دامن گل چیں میں گل نے رو کے کہا کہ میری جان کا دشمن تھا رنگ و بو میرا اور ان سب کا ردعمل خطابات و اختیارات سے علیحدگی تجویز ہوئی، مگر قرارداد جرم مرتب کرنے کے لیے ابھی کسی بہانہ کی ضرورت تھی۔ ادھر قصہ فرہاد و داستان قیس یعنی مجاہدین کا وہ خونی افسانہ ابھی زبان زد عام تھا، جس نے کوہستان کشمیر و کابل کو اپنے خون شہادت سے لالہ زار بنا دیا تھا، انبالہ کا وہابی کیس ابھی ابھی ختم ہوا تھا، جس میں حضرات صادق پور و بہار۔ (مولوی احمد اللہ و مولانا یحییٰ علی و حضرت عبدالرحمٰن و سیدنا عبدالغفار منشی، مولانا جعفر علی تھانیسری وغیرہم) کالے پانیوں کو بخر نور سے بدلنے کے لیے بھیج دئیے گئے تھے، ان احوال میں سید صدیق حسن خاں جیسے مجدد الوقت پر الزامات لگانے کیا مشکل تھے، پس یہ روئیدادِ جرم یوں مرتب کی گئی۔ الزامات: (1) ترغیب جہاد اور گورنمنٹ کی مخالفت (2) مذہب وہابیت کی ترغیب اور ان دونوں دفعات کو مجلّا کرنے کے لیے یعنی