کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 29
نواب صاحب مرحوم اپنی بیوی کے فضل و احسان اور حسن سلوک کا تذکرہ فرماتے ہوئے ’’ابقاء المنن‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وہ انتہائی اعلیٰ اخلاق، لطیف طبع، شریفانہ عادات، عالی ہمت، حاضر جواب، بہادر، کتاب و سنت کے علماء سے محبت کرنے والی، فصیح اللسان اور فہم و ادراک اور عقل و شعور کی حامل عورت تھی۔‘‘ اعزازات و خطابات: نواب مرحوم کی رئیسہ بھوپال سے شادی کے بعد آپ کو مملکت میں اہم مقام حاصل ہو گیا اور آپ وزیراعظم کے منصب تک جا پہنچے، سالانہ جاگیر پچیس ہزار سے شروع ہو کر پچھتر ہزار روپے سالانہ تک مرحمت کی گئی۔ علاوہ ازیں سول حکومت کے عہدیداروں اور فوجی افسران وغیرہ کی طرف سے نذریں پیش کی جانے لگیں اور علاقہ بھوپال میں سترہ توپوں کی سلامی پیش ہونے لگی نیز آپ کو نواب، والا جاہ اور امیر الملک ایسے خطابات سے سرفراز کیا گیا۔ سیر و سیاحت: اب نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ جلوت و خلوت میں نواب شاہ جہاں کے دست راست تھیں وہ اپنے تمام نجی اور سرکاری دوروں اور اجلاسوں میں آپ کو ساتھ رکھتیں۔ اس سلسلے میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی وغیرہ کے سفر اور حکومت برطانیہ اور ان کے وائسراؤں کے ساتھ میٹنگوں اور سرکاری تقریبات میں آپ کی شرکت اور آپ کو پیش کیا گیا مقام و مرتبہ ایک بڑی دلچسپ اور پرشکوہ داستان ہے جس کی تفصیلات مآثر صدیقی حصہ دوم میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ معزولی: نواب صدیق حسن خان مرحوم اور ان کی اعلیٰ صفات کی حامل زوجہ نواب شاہ جہاں بیگم ریاست بھوپال کو نہایت خوش اسلوبی سے چلا رہے تھے اور ریاست کو دینی و دنیوی اعتبار سے آسمان رفعت و عظمت پر لے گئے تھے نیز بھوپال علمی مرکز کی حیثیت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی مراعات و سہولیات سے ہمکنار ہو کر امن و امان کا منبع و محور بن گیا تھا۔ لیکن یہ عظیم ترقی و عروج حاسدین اور سازشی عناصر کو گوارا نہ ہوا اور انہوں نے حکومت برطانیہ کو مختلف من