کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 28
انتقال فرما گئیں اور ان کی صاجزادی نواب شاہ جہاں بیگم تخت شاہی پر جلوہ افروز ہوئیں۔ ان کا نکاح نواب باقی محمد خاں مرحوم سے ہوا تھا اور وہ ان کی تخت نشینی سے پہلے 21 صفر 1284 ہجری کو انتقال کر چکے تھے۔ اب نواب شاہ جہاں بیگم کو اپنے امور سلطنت کو چلانے کے لیے ایسے رفیق حیات کی ضرورت تھی جو محبت و پیار کا خوگر، علم و عمل کا مجسمہ، باصلاحیت و منتظم اور والیۂ ریاست کا خیرخواہ ہونے کے ساتھ ساتھ رعایا کا مددگار اور آداب شاہانہ سے بھی آراستہ و پیراستہ ہو۔ چنانچہ ان کی نظر انتخاب نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ پر پڑی اور بڑی شان و شوکت سے آپ کا نکاح رئیسہ بھوپال سے 17 صفر 1288 بمطابق 8 مئی 1871ء کو منعقد ہوا۔ اس پرشکوہ تقریب سعید میں عمائدین حکومت، ارکان ریاست، فوجی افسران اور علمائے کرام شریک ہوئے۔ پچیس ہزار روپے حق مہر مقرر ہوا۔ نواب شاہ جہاں بیگم زوجہ محمد نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف ’’تاج الاقبال‘‘ میں سید صدیق حسن خان کے انتخابات کی وجوہات بیان کی ہیں جس میں ان کی والدہ نواب سکندر بیگم کے اظہار پسندیدگی، آپ کی سترہ سالہ خدمات جلیلہ کا تذکرہ اور آپ کی وفاداری، خلوص، جانفشانی، اعلیٰ قابلیت اور دیانت داری کے ذکر کے ساتھ ساتھ آپ کی دینی خدمات اور آپ کے حسب و نسب کو بھی شاندار طریقے سے بیان کیا ہے۔ نواب شاہ جہاں بیگم کے اخلاق و اطوار: نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی پہلی بیوی ذکیہ بیگم نہایت پاکباز، صالحہ، وفا شعار اور فرمانبردار بیوی تھی۔ نواب شاہ جہاں بیگم کو ان صفات یعنی پاکیزگی و تقویٰ اور وفا شعاری و اطاعت گزاری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اور خوبیوں سے بھی نوازا تھا۔ آپ ایک شان دار اور مدبرہ حکمران، اخلاق حسنہ سے متصف، تحریر و تقریر کی خوبی سے مزین اور اپنے خاوند پر مرمٹنے کا جذبہ رکھنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے خاوند صدیق حسن خان سے قرآن و سنت کی تعلیمات حاصل کیں اور ان کے مطابق عمل پیرا ہوئیں، ریاست میں نواب صاحب کے اصلاحی احکامات کو نافذ کیا اور آپ کی ہدایات اور کتب سے استفادہ کرتی رہیں اور خود بھی کئی ایک کتب تالیف کیں۔