کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 26
باوجود وہاں ٹھہرنے پر تیار نہ ہوئے اور چار ماہ کی رخصت لے کر بھوپال آ گئے۔ کیونکہ اسی دوران آپ کو دوبارہ بھوپال طلب کر لیا گیا۔ بھوپال واپسی: آپ ٹونک سے بھوپال 1859ء میں پہنچے، اب سکندر بیگم بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئیں، گزشتہ انکار پر اظہار افسوس کیا اور آپ کو ریاست کی تاریخ نگاری کی ذمہ داری سونپی اور پچھتر روپے ماہانہ تنخواہ مقرر کی۔ اس پر آپ نے اپنا استعفاء نواب امیر الملک وزیر الدولہ کی خدمت میں بھیج دیا اور اس کے ساتھ اپنی نئی کتاب ’’تحفہ فقیر‘‘ بطور تحفہ بھیجی۔ بھوپال اب وہ بھوپال نہیں رہا تھا کہ جہاں آپ کی قدم قدم پر مخالفت ہوتی تھی بلکہ اب سرزمین بھوپال آپ کے قدموں میں پھول بچھا رہی تھی اور سربلندی و عروج آپ کی قدم بوسی کو تیار تھے۔ نکاح: ابھی تک نواب مرحوم کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اب بھوپال میں آپ کی شہرت کا سورج جگمگانے لگا تھا۔ مدار المہام منشی جمال الدین خان نائب اول ریاست بھوپال آپ کی اعلیٰ قابلیت اور آپ کی صلاحیتوں کے پہلے ہی معترف تھے۔ انہوں نے اپنی سلیقہ شعار اور نیک بخت بیوہ دختر ذکیہ بیگم کا نکاح ثانی آپ سے کر دیا۔ آپ کا نکاح 25 شعبان 1277 ہجری کو ماجی مسجد میں ہوا اور نکاح کا خطبہ مسنونہ مولانا عبدالقیوم بن مولانا عبدالحی نے پڑھا۔ اس رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد آپ کا مقام مزید بلند ہو گیا اور آپ کو ریاست میں ایک اہم رکن کی حیثیت حاصل ہو گئی اور آپ کا مشاہرہ ایک سو روپے کر دیا گیا۔ اب آپ نے اپنی والدہ محترمہ اور بہنوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ذکیہ بیگم سے دو بیٹے (سید نور الحسن خان طیب، سید علی حسن خان طاہر) اور ایک بیٹی (صفیہ بیگم) عطا کی۔ سفر حج: آپ 1885ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے گئے، حج کرنے اور مدینہ منورہ کی زیارت سے فارغ ہو کر آپ آٹھ ماہ بعد واپس تشریف لے آئے۔ آپ اس سفر کے بارے میں فرماتے ہیں: