کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 25
جسے غدرنے 1857ء کا نام دیا گیا۔ قنوج بھی اس ہنگامہ کی لپیٹ میں آیا جس سے آپ کو بھی کئی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ آپ کے والد گرامی کے عقیدت مند آپ کو والدہ اور بہنوں سمیت بلگرام لے گئے۔ بلگرام اودھ کا ایک مشہور قصبہ ہے اور اسے قدیم زمانہ سے دارالعلم ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ اس کے ایک محلہ میدان پورہ میں کرائے کے مکان میں قیام پذیر ہو گئے۔ یہاں آپ مع اہل خانہ نہایت کسمپرسی میں رہے ان حالات کی عکاسی آپ کے صاجزادے علی حسن اس طرح کرتے ہیں:
’’والا جاہ کو کئی مہینہ تک صرف ایک سیاہ جامہ خشن اور نان خشک شبینہ پر وقت گزاری کرنا پڑی، جب کپڑا پھٹ جاتا اپنے ہاتھ سے سی لیتے جب میلا ہو جاتا تو خود دریا پر جا کر دھو لاتے۔‘‘
اس تنگ دستی کے عالم میں بھی آپ نے اپنی خودی نہ بیچی اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا بلکہ صبر و قناعت کے ساتھ ساتھ آپ نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیا اور اسی زمانہ میں آپ نے سکھوں سے جان بچ جانے (جس کا تذکرہ پیچھے کیا جا چکا ہے) کی خوشی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایک طویل قصیدہ لکھا جس کے ستر اشعار ہیں، اس کا عنوان ’’قصيده العنبريه في مدح خير البريه‘‘ ہے۔ آپ نے اس میں خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار مبارک کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
سفر ٹونک:
جب 1857ء کا ہنگامہ ختم ہوا تو آپ دوبارہ قنوج واپس تشریف لے آئے اور بعد ازاں سکندر بیگم والیۂ بھوپال کی طلبی پر دوبارہ عازم بھوپال ہوئے۔ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ حاسدین نے سکندر بیگم کے کان بھر دئیے ہیں، چنانچہ آپ کو ملازمت نہ مل سکی اور آپ ناکام لوٹے۔ بھوپال سے واپسی پر آپ ٹونکے چلے گئے۔ ٹونک میں آپ کی ملاقات سید اسماعیل امیر کے ساتھ ہوئی اور تقریباً دو ماہ ان کے پاس قیام پذیر رہے اور اس کے بعد نواب وزیر الدولہ نے آپ کو پچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر اپنے پاس رکھ لیا۔ لیکن یہاں آپ کا دل نہ لگ سکا اور آپ وہاں کی طرزِ معاشرت سے بیزار ہو گئے اور نواب وزیر الدولہ کے پرزور اصرار کے