کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 24
گزارنے کے بعد تلاش معاش کے لیے ریاست ٹونک گئے اور بعد ازاں مشہور اسلامی ریاست بھوپال کا رخ کیا۔ جب آپ بھوپال تشریف لے گئے تو آپ نے ایک روایت کے مطابق موتی مسجد کے ایک حجرہ میں قیام کیا۔ اس وقت بھوپال میں سکندر بیگم کی حکومت تھی۔ آپ روزگار کے لیے ریاست بھوپال کے مدار المہام نائب اول منشی جمال الدین خاں کی خدمت میں پیش ہوئے۔ چنانچہ آپ کو تیس روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم رکھ لیا گیا۔ آپ نہایت جانفشانی، مستعدی اور نیک نیتی سے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے، آپ نے اس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ وعظ و تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور مسجد ابراہیم خاں میں ہر جمعۃ المبارک کو خطاب کرتے رہے۔ بعد ازاں ریاست بھوپال میں میرد بیری خالصہ کی جگہ خالی ہوئی تو آپ کا تقرر چالیس روپے ماہانہ مشاہرے پر کر دیا گیا جسے بعد میں پچاس روپے کر دیا گیا۔ وطن واپسی: نواب مرحوم بڑی محنت سے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو رہے تھے کہ آپ کو ملازمت دلوانے کا باعث بننے والے مولانا علی عباس مرحوم چڑیا کوٹی سے حقہ کی اباحت پر مناظرہ ہو گیا، نواب مرحوم حقہ کی اباحت کے قائل تھے جب کہ مولانا علی عباس اس کی حرمت پر زور دیتے تھے۔ اسی طرح آپ کو 1855ء میں سرکار کی طرف سے میرد بیری کا جو سرکاری خلعت عطا ہوا تھا وہ کوئی چرا کر لے گیا اور سابق میرد بیر منشی عبد العلی خاں اپنے سابقہ عہدہ میرد بیری پر بحال ہو گئے۔ چنانچہ ان اسباب و وجوہ کی بناء پر آپ کو ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔ آپ اس سلسلے میں کہتے ہیں: ’’میں نے اس عزیز دوست (شیخ علی عباس) سے بلاوجہ جھگڑا کیا جو میرا پرانا دوست اور ملازمت کا باعث تھا اور اس مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں ملازمت سے معزول ہو کر بے کار ہو گیا۔‘‘ چنانچہ آپ چاروناچار اپنے وطن قنوج واپس آ گئے۔ ابھی فکر معاش میں تھے کہ 6 جون 1857ء کا ہنگامہ برپا ہو گیا اور تحریک آزادی کے نام سے ملک میں بدامنی اور بے چینی پھیل گئی