کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 23
دولت ہونے کے باوجود صابر و شاکر، عابد و زاہد اور درویش و قانع انسان تھے، اس بناء پر آپ کو یہاں انتہائی سکون و اطمینان حاصل ہوا۔
آپ نے اس قیام کے دوران شہرہ آفاق محدث مفتی محمد صدر الدین خان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے اور ان سے تمام علوم و فنون کی کتب سبقاً پڑھیں اور سند فراغت حاصل کی۔ دورانِ تعلیم آپ نے بعض کتب اور حواشی اپنے ہاتھ سے نقل کیے۔ مثلاً اردو ترجمہ منبہات ابن حجر مکی، حبل المتین، اربعین فی اصول الدین، علاوہ ازیں آپ نے تالیف و تصنیف کا کام بھی شروع کر دیا اور مختصر المیزان کی ایک مختصر شرح عربی زبان میں تحریر کی۔ نیز آپ نے دورانِ تعلیم، درس و تدریس کا بھی آغاز کر دیا اور طلبہ کو بعض درسی کتابیں بھی پڑھائیں اور علوم متداولہ سے فراغت پائی۔
نواب صاحب نے قیام دہلی کے ان دو برسوں میں اہل علم و محدثین کی ملاقاتوں سے بھی خوب استفادہ کیا اور امراء سلطنت کی مجالس میں بھی شریک ہوئے۔ جن سے آپ کو آداب مجالس اور آئین دربار سے شناسائی ہوئی اور سلطنت مغلیہ کے آخری فرماں روا کے جاہ و جلال اور ان کی تباہی کا زمانہ دیکھنے کو موقع ملا، آپ نے ان متضاد واقعات و مشاہدات سے کئی قسم کی عبرتیں اور تجربات حاصل کیے جن سے لطائف و انعام ربانی کے رموز اور قہر و غضب ربانی کے اسرار و غوامض آپ پر آشکارا ہوئے اور علمی جدوجہد کی راہیں، آپ پر وسیع و کشادہ ہوئیں اور ہر طرح کی دنیوی و اخروی بلندی حاصل کرنے کے لیے حوصلہ مندی کے جذبات آپ کی ذات میں پیدا ہوئے۔
والا جاہ مرحوم کے ہاں دہلی میں دو برس قیام کے بعد مفتی صدر الدین اور دیگر اساتذہ سے سند اجازت لے کر واپس آئے۔
سفر بھوپال:
سید صدیق حسن خاں اکیس برس کی عمر میں واپس قنوج تشریف لائے تو آپ کو فکر معاش دامن گیر ہوا کیونکہ آپ کے علاوہ والدہ محترمہ اور ہمشیرگان کے لیے کوئی کفالت کا بندوبست نہ تھا۔ آپ کے بھائی مولانا احمد حسن عرشی وفات پا چکے تھے لہٰذا چند ماہ بڑی تنگی و کسمپرسی کے