کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 22
مطالعہ کیا اور ان کتب سے اچھے اچھے فقرے اور جملے یاد کر لیے۔ ان کتب کی ورق گردانی اور فقرات کے یاد کرنے سے علم کا ایک ایسا شوق دامن گیر ہوا کہ جو کتاب، قصہ، داستان خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں ہاتھ لگا اول سے آخر تک پڑھ ڈالا۔ یہاں تک کہ فسانہ عجائب، مثنوی میرتقی میر، یوسف زلیخا، سکندر نامہ اور دیگر مشہور دواوین فارسی و اردو سب کا مطالعہ کیا اور ان سب کتابوں سے ’’خد ما صفاع ودع ماكدر‘‘ کے تحت اچھی اور کارآمد باتیں اخذ کیں اور انہیں یاد کر لیا۔ اس طرح آپ میں ابتدائے عمر میں ہی کافی استعداد و صلاحیت پیدا ہو گئی۔
آپ نے خوشخطی کی تعلیم باقاعدہ کسی خطاط یا استاد سے حاصل نہیں کی اور نہ کبھی کسی خوش نویس سے اصلاح لی تھی۔ آپ کا خط محض طبعی تھا۔ ابتداء میں جلی قلم سے لکھا کرتے تھے لیکن عمر کے آخری حصہ میں باریک قلم سے لکھنا شروع کر دیا تھا۔ گویا زود نویسی آپ کو ورثہ میں ملی تھی لیکن اس کو جلا بخشنے اور نکھارنے کے لیے آٹھ ورق روزانہ لکھنا آپ کی زندگی بھر کا معمول تھا۔
نواب مرحوم نے میزان منشعب، میزان الصرف، تصریف زہدہ شرح تہذیب اور مختصر معانی وغیرہ اپنے بھائی سید احمد حسن عرشی سے پڑھیں، اس کے بعد آپ کے والد مرحوم کے ایک عقیدت مند سید احمد علی اپنے ساتھ آپ کو فرخ آباد لے گئے۔ آپ وہاں چند ماہ رہے اور مولانا محمد حسین اور دیگر اساتذہ سے کافیہ، شرح جامی، قطبی، میر قطبی، افق المبین، در مختار اور مشکوٰۃ المصابیح پڑھیں، بعد ازاں آپ کو آپ کے والد محترم کے مرید کانپور لے گئے اور آپ نے کانپور میں ملا محمد مراد بخاری اور مولوی محمد محب اللہ پانی پتی سے کسبِ فیض کیا۔
سفر دہلی:
آپ فرخ آباد اور کانپور کی اعلیٰ علمی مجلس میں شریک ہوتے رہے جس سے آپ کی علمی صلاحیتیں مزید نکھرتی رہیں۔ بالآخر آپ قاضی کلو کے مشورے سے ان کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کو برصغیر میں دارالحکومت ہونے کے علاوہ ایک بلند علمی مقام بھی حاصل تھا اور دہلی ہمیشہ سے علوم و فنون اور ادباء و شعراء، واعظین و خطباء اور فقہاء و محدثین کا مرکز و مرجع رہا ہے۔ آپ نے دہلی میں مولانا بشیر الدین قنوجی مرحوم کے ہاں کئی روز تک قیام کیا پھر آپ نواب مصطفیٰ خان بہادر کے محل میں دو سال قیام پذیر رہے، نواب مصطفیٰ صاحب ثروت و