کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 190
و ثابت نہیں ہیں، کیونکہ وہ کسی صحیح حدیث شریف میں نہیں آئے۔ ([1]) اذان کے بعد ’’محمد رسول اللہ‘‘ کا اضافہ کرنا: اور بعض لوگ اذان کے بعد " لا اله الا الله " کے ساتھ " محمد رسول الله " کا اضافہ کرتے ہیں یہ بھی درست نہیں ہے۔ اگرچہ " محمد رسول الله " قرآن کریم (و حدیث) وغیرہ میں موجود ہے لیکن خاص اس موقع پر شارع سے ثابت نہیں ہے اور جو امر شارع سے ثابت ہو وہی کرنا چاہیے۔ اپنی طرف سے ایجاد کر لینا بہت مذموم عمل ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں منقول ہے کہ: جب کوئی چھینک لے تو " الحمدلله " کہے اور سننے والا " يرحمك الله " یہ شارع کا حکم تھا۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے وقت ایک شخص نے چھینکنے کے بعد " الحمدلله السلام عليكم " کہا۔ حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا " عليك و علي امك " یعنی تم پر اور تمہاری ماں پر سلام ہو، تو وہ شخص کچھ خفا سا ہو گیا۔ حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: بھائی خفا کیوں ہوتے ہو؟ میں نے کوئی بے جا کلمہ تو نہیں کہا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے کہا تھا جیسا کہ تم نے چھینک لینے کے بعد کہا ہے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی جواب دیا تھا جیسا کہ میں نے! اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مقام سلام کہنے کا نہیں ہے۔ (ھکذا فی الترمذی و ابی داؤد والمشکاۃ وغیرھا من کتب الحدیث۔ مسلم 1؍381۔ مصابیح السنہ 1؍363)
[1] ۔اذان کے بعد یہ دعا پڑھنا بھی سنت سے ثابت ہے جسے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مؤذن (کی اذان) سن کر یہ دعا پڑھے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےسوا کوئی (سچا) معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں اللہ کے رب ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔‘‘ (مسلم 1/290، مشکوٰۃ البانی 1/209، مصابیح السنہ 1/273) (جاوید)