کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 19
والدین کا ادب و احترام: نواب صاحب کے والد محترم چونکہ آپ کے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے اور آپ نے سن شعور میں اپنی والدہ محترمہ کو پایا۔ اس لیے آپ اپنی والدہ محترمہ کی بڑی خدمت کرتے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے اور آپ اولاد پر والدہ کی خدمت و تعظیم کو والد کے حق پر تین گنا زیادہ کی نسبت سے خیال کرتے ہوئے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت پیش کرتے تھے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری والدہ۔ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار فرمایا: تیری والدہ۔ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری والدہ۔ اس نے کہا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا والد۔‘‘ ایسے ہی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: ((اُمَّكَ ثُمَّ اُمَّكَ ثُمَّ اُمَّكَ ثُمَّ اَبَاكَ ثُمَّ اَدْنَاكَ ثُمَّ اَدْنَاكَ)) ’’تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیرا باپ، پھر تیرا قریبی، پھر تیرا قریبی۔‘‘ نواب صاحب ہمیشہ اپنی والدہ کی خدمت و اطاعت اور ان کی رضا جوئی کے لیے کوشاں رہتے تھے، فرماتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے اس قدر بکثرت مال عطا فرمایا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے حتیٰ الامکان اپنی والدہ ماجدہ کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے اور میں ان کے سامنے اس طرح رہا ہوں جیسے کوئی کنیز یا غلام اپنے آقا کے سامنے رہتا ہے۔‘‘ آپ اپنے والد مرحوم کے بارے میں بھی والدہ محترمہ کی طرح خدمت بجا لانے اور اطاعت شعار ہونے کے ارادہ کا تذکرہ کرتے ہیں اور اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے محبت کے عملی اظہار اور انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کا تذکرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا ورنہ حتی المقدور ان کی خدمت بجا لانے میں