کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 182
غلط ہے۔ اول اس لئے کہ ہر جگہ سے سننا اور غیب کی باتیں جاننا سوائے اللہ کے اور کسی کی صفت نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص ماسوا اللہ کے دوسرے میں بھی یہ صفت ثابت کرے تو وہ قطعی مشرک ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: (وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۔۔۔ (سورة الانعام: 59)) ’’اور غیب کی کنجیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں اور بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔‘‘ اور فرمایا: (قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ۔۔۔ (سورة الانعام: 50)) ’’ آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔‘‘ مزید اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۔۔۔ (سورة الاعراف: 188)) ([1]) ’’آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو
[1] ۔ (1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا لگنا اور آپ کا پریشان رہنا (2) سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہونا (3) ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قتل کر دیا جانا جن کو دعوتِ اسلام کے لئے بھیجا گیا تھا۔ (4) قیامت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ہی جانتا ہے کہ کب قائم ہو گی۔ (5) طائف اور جنگِ اُحد میں آپ کا زخمی ہونا۔ (6) ان شاءاللہ نہ کہنے کی وجہ سے وحی کا کچھ دن بند رہنا ۔۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحبِ غیب تھے تو ان واقعات کا کیا معنی ہے؟ (جاوید)