کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 18
لیکن نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ ان فخریہ القاب اور حکومتی خطابات کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ آپ دنیا اور اہل دنیا کی صحبت سے نفرت کرتے تھے اور آپ کی طبیعت میں انتہائی زیادہ انکساری تھی۔ آپ انبیاء علیہم السلام کی وراثت پر فخر کرتے تھے اور علم کی نسبت سے منسوب ہونے کو پسند کرتے تھے۔ آپ کا خیال تھا کہ نواب کا لقب، رب کائنات کی طرف سے عتاب کا باعث اور میدانِ محشر میں ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے اور یہ حکومت و ولایت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی آزمائش ہے۔
ابتدائی حالات:
ابھی آپ نے اپنی عمر کی پانچ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ آپ کے والد محترم سید اولاد حسن داغ مفارقت دے گئے۔ انا لله و انا اليه راجعون
ان معصومانہ ایامِ طفولیت میں شفیق اور نامور عالم، باپ کا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا اور پُر حسرت و اندوہ یتیمانہ زندگی کا آغاز ہوا۔ والد گرامی کی وفات کے باوجود آپ نے عمدہ اور نفیس ماحول میں پرورش پائی اور والدہ محترمہ جو کہ عظیم عالم، مفتی عوض علی (بانس بریلی) کی نہایت نیک، اعلیٰ عادات و اطوار کی مالک، اخلاق حسنہ کی پیکر اور اتباع سنت کی حامل خاتون تھیں، کی سرپرستی اور گود میں پرورش پائی۔ جنہوں نے اپنی کسمپرسی اور عسر و تنگدستی کی حالت کے باوجود آپ کی اعلیٰ تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اپنی ہمت سے بڑھ کر آپ کی تعلیم و تربیت اور آپ کے اخلاق و کردار سازی پر توجہ دی۔ وہ آپ کی دینی تربیت اور بالخصوص نماز اور ذکر و اذکار پر خصوصی توجہ دیتی تھیں۔ نواب صاحب فرماتے ہیں:
’’میں سات برس کا تھا، میرے گھر کے دروازے پر مسجد تھی، مجھے خوب یاد ہے کہ صبح کے وقت اذان ہوتے ہی والدہ محترمہ مجھے بیدار کر دیتیں اور وضو کرا کر مسجد میں بھیج دیتی تھیں اور گھر میں نماز کبھی نہ پڑھنے دیتی تھیں، اگر نیند کی سستی کی وجہ سے نہ اٹھتا تو منہ پر پانی ڈال دیتی تھیں۔ اس وجہ سے بچپن ہی سے نماز کی عادت پڑ گئی، شاید دس برس کی عمر میں والدہ نے روزہ رکھوایا اور اس وقت سے روزہ رکھنے کی عادت پڑ گئی۔‘‘