کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 17
کو نذر دکھلاتے تھے۔ میرے والد سید اولاد حسن رحمہ اللہ نے شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہما سے علم حاصل کیا اور شاہ عبدالقادر صاحب موضح القرآن کو دیکھا اور شاہ عبدالعزیز کے خلیفہ حضرت سید احمد ساکن رائے بریلی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ عالم باعمل تھے۔ کلکتہ سے لاہور شمال سے دکن تک کے اکثر علماء و امراء آپ سے واقف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے نصائح میں نہایت اثر ودیعت فرمایا ہوا تھا، چنانچہ قنوج و اطراف قنوج کے دس ہزار سے زیادہ آدمی ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔‘‘
کنیت و لقب:
نواب صدیق حسن رحمہ اللہ اپنے حالاتِ زندگی لکھتے ہوئے اپنی کنیت ابو الطیب لکھتے ہیں اور اس کنیت کی وجہ بتاتے ہیں کہ حج کا سفر تھا، میں بیت اللہ کے قریب کھڑا تھا اور میں نے حطیم کی مٹی کی خوشبو سے اپنے آپ کو معطر کیا تھا اور اسی جگہ کو ٹھہرنے کے لیے منتخب کیا تھا تو اس بناء پر میں اپنے آپ کو ابو الطیب کہتا ہوں۔ اور پھر آپ نے آخری زندگی میں اپنی کنیت ابو الوفاء رکھی۔ اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کی یہ دو کنیتیں ہیں لیکن آپ کی پوری حیات مبارکہ میں آپ کی کوئی کنیت معروف نہیں ہوئی۔
جہاں تک لقب کا تعلق ہے تو آپ نے پہلے پہلے ’’روحی‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ لیکن دوسرے لوگوں نے آپ کو مجدد کا لقب دیا۔ جب آپ ایوانِ حکومت میں داخل ہوئے تو آپ کو خان کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ بعد ازاں آپ حکومتی القاب میں سے اہم ترین لقب نواب اور والا جاہ کے سزاوار ٹھہرے۔ یہ لقب حکومتی القاب میں سے سب سے اہم، بڑا اور ریاستی عظمت کا نشان تھا۔ جو مسلمانوں کے رہنما کے لیے چنا گیا اور اس کے بعد آپ کو ارضِ ہندوستان میں انتہائی عظمت کا نشان سمجھا گیا اور آپ کا لقب رتبے کے اعتبار سے برطانیہ کے استعماری عہد میں امیر ہندوستان کے لیے وضع کیے گئے لقب ’’مہاراجہ‘‘ کے مساوی تھا۔
بعد ازاں ملکہ بھوپال شاہ جہاں بیگم نے آپ کو یہ لقب دئیے ’’نواب صاحب، والا جاہ، امیر الملک، سید محمد صدیق حسن خان بہادر سلمہ اللہ تعالیٰ۔‘‘