کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 165
کر دی ہو۔ بس ولد الزنا سے متعلق بھی وہی اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا نہ کہ اس کے برعکس رویہ اختیار کیا جائے۔ صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت عبداللہ بن دینار سے مروی ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ:
بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعثا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَطَعَنَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِمْرَتِهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمْرَتِهِ، فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمْرَةِ أَبِيهِ مِنْ قَبْلُ، وَايْمُ اللَّهِ، إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلإِمْرَةِ، وَإِنْ كَانَ لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَإِنَّ هَذَا لَمِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَهُ ۔ (فتح الباری 7؍86)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اسامہ بن زید کو اس پر امیر مقرر فرمایا بعض لوگوں نے ان کی سرداری پر طعن کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: کہ اگر تم اس کی سرداری پر طعن کرتے ہو تو اس سے قبل اس کے باپ کی سرداری پر بھی طعن کر چکے ہو، اللہ کی قسم! وہ امارت کا مستحق تھا اور لوگوں میں میرے نزدیک بہت زیادہ محبوب تھا اور اس کے بعد یہ (حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ) لوگوں میں سب سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہے۔‘‘
سو جو لوگ ولد الزنا کی امامت کو مکروہ کہتے ہیں وہ لوگ اعانت علی الظلم کرتے ہیں اور اس پر ظلم کرتے ہیں اور لوگوں میں فاسد عقیدہ کی اشاعت کرتے ہیں۔ ([1])
كما لا يخفي علي من له ادني فهم۔ والله اعلم بالصواب۔ قد
[1] ۔تاہم دارالعلوم دیوبند ولد الزنا کی امامت کو بلا کراہت جائز کہتے ہیں۔ تفصیل ذیل میں ملاحظہ ہو:
سوال: جس شخص کے باپ کا حال معلوم نہ ہو کہ کون ہے؟ کیا وہ مسجد کا مستقل امام ہو سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: اگر خود لائق امام بنانے کے ہے مثلا مسائل نماز سے واقف ہے اور قراءت صحیح پڑھتا ہے اور فسق و فجور سے مجتنب ہے تو وہ امام بنایا جا سکتا ہے۔ شامی میں تصریح ہے کہ اگر ولد الزنا خود صالح و عالم وغیرہ ہو تو اس کی امامت بلا کراہت صحیح ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/204)
دوسری جگہ لکھا ہے کہ حرامی کے پیچھے نماز درست ہے۔ جو مشہور رہے وہ بین الناس، یہ غلط ہے اور صورت مسئولہ میں اس کا امام بنانا بلا کراہت درست اور جائز ہے۔ کیونکہ احکامِ نماز سے سب سے زیادہ واقف ہے اور فقہاء نے وجہ کراہت یہ تو تحریر فرمائی ہے کہ حرامی کا کوئی باپ شفیق نہیں ہوتا ،لہذا جاہل رہتا ہے، تو معلوم ہوا کہ اگر جاہل نہ ہو تو بلا کراہت جائز ہے۔ بلکہ اس صورت میں سب سے زیادہ حق دار ہے کہ اس کو امام بنایا جائے۔ کما فی الدر المختار۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/322) (جاوید)