کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 156
ہو تو جائز ہے۔ اور بعض کہتے ہیں اگر وہ زیادہ صاحب علم ہو تو امامت میں اولی و مقدم ہے۔ شرح الکنز (حاشیہ 32) بحوالہ المبسوط۔ اس طرح اور کتابوں میں بھی اس کے اشباہ و نظائر پائے جاتے ہیں۔‘‘ البتہ یہ حنفی مذہب میں مکروہ ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے: (1؍124) والأعمى لأنه لا يتوقى النجاسة۔ ’’(اس لئے کہ) اندھا نجاست سے نہیں بچتا۔‘‘ اصحابِ بصیرت ذرا غور کریں کہ کیسی دلیل ہے۔ اول تو یہ قاعدہ کلیہ کہ ’’نجاست سے نہیں بچتا‘‘ مشاہدہ سے غلط ثابت ہوتا ہے کوئی شخص اسے ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر مان بھی لیا جائے تو علت، نجاست سے بچنا ہے۔ اندھا بذاتہ علت نہیں۔ سو مطلقا یہ حکم لگانا کہ اندھے کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ کیونکر صحیح ہو گا۔ جس سے یہ عقیدۂ فاسد عوام میں راسخ ہو گیا کہ اندھا ہونا خود ایسا عیب ہے جس سے نماز مکروہ ہوتی ہے بلکہ یہ حکم لگانا چاہیے کہ: جو نجاست سے نہ بچے خواہ اندھا ہو خواہ نابینا ہو اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ ([1])
[1] ۔نابینا کی امامت کے متعلق علماء دیوبند کا موقف، کراہت و عدم کراہت دونوں طرح سے ’’فتاویٰ دارالعلوم‘‘ میں منقول ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو: سوال: نابینا کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ جواب: اگر نجاست سے محفوظ رہتا ہے اور مسائل نماز سے واقف ہے تو اس کی امامت درست ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/101) مزید۔ اندھے وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ ہے اور بہتر نہیں ہے، لیکن اگر اندھا مسائل نماز سے واقف اور محتاط ہے تو پھر کچھ کراہت نہیں ہے، چنانچہ ایک صحابی ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو نابینا تھے ان کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مقرر فرمایا تھا۔ فقط (فتاویٰ دارالعلوم 3/169) اور تحریر کیا ہے کہ: امامت کے لئے افضل وہ شخص ہے جو مسائل نماز جانتا ہو اور صالح و متقی ہو اندھا ہونے سے کچھ حرج نہیں جب کہ وہ نیک اور محتاط ہو اور مسائل سے واقف ہو پس اگر وہ امام اندھا مسائل دان ہے اور نیک ہے تو جمعہ کی امامت کے لئے بھی وہی افضل ہے۔ (فتاویٰ دارالعلوم 3/97) (جاوید)