کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 148
القدیر ص 340 ([1]) مطبوع میں لکھا ہے کہ اس طرح سے جیسا کہ آج کل مروج ہے سنت فجر پڑھتے ہیں، بہت سخت مکروہ اور بڑے اجہل ہیں۔ اور بدایہ مع الکفایہ صفحہ 86 میں لکھا ہے کہ: سنتِ فجر وقت اقامت مسجد میں ممنوع و نادرست ہے، اگر پڑھتے تو خارج از مسجد پڑھے۔ اور مولوی عبدالحئی لکھنوی حنفی نے عمدۃ الرعایۃ ص 238 و تعلیق الممجد ص 88 میں بعد اللتيا (یعنی اس اختصار کے بعد) بڑی صراحت سے مذکور ہے کہ صحیح مرفوع احادیث کی رو سے سنتِ فجر تکبیر (اقامت) کے وقت نہ پڑھنی چاہیے۔ ((خادم شریعت رسول الاداب ابو محمد عبدالوھاب 1300ھ)) الفنجابی نزیل الدہلی ٭ الجواب صحیح۔ محمد طاہر سلہٹی 1304ھ ٭ اکثر جاہل لوگ جو وقتِ اقامت فرض، صبح کی سنتیں پڑھتے ہیں یہ درست نہیں، بلکہ جماعت میں شامل ہونا چاہیے۔ محمد امیر الدین حنفی واعظ جامع مسجد دہلی۔ ٭ خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین 1292ھ ٭ سید محمد عبدالسلام 1299ھ ٭ الجواب صحیح عبداللطیف 1298ھ ٭ محمد امیر الدین 1301ھ
[1] ۔ابن حمام نے تحریر کیا ہے کہ فان صلى من الفجر ركعة ثم أقيمت يقطع ويدخل معهم۔ (فتح القدیر 1/237) اور امام محمد نے اس کی وضاحت یوں کی ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: دو نمازیں ایک وقت یعنی جماعت کے روبرو نفل پڑھنے سے آپ نے منع کیا اور امام محمد نے کہا کہ جب اقامت ہو جائے تو ماسوا دو رکعت فجر کے، اور نوافل کا پڑھنا مکروہ ہے۔ ان دونوں کے پڑھنے میں کچھ عیب نہیں۔ اگر مؤذن اقامت کہہ دے تو یہ جماعت کے ہوتے ہوئے نہ پڑھتا رہے یا اقامت سن کر شروع کر دے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ مؤطا امام محمد ص 37 (جاوید)