کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 140
روپیہ یا زدہ ماشہ و چہاررتی ست یک سیر نیم پاؤ و نیم چھٹانک و یکتولہ سہ و سہ ماشہ می باشد۔‘‘ انتہی
’’روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے، نصف صاع گندم سے ایک سیر، چھ چھٹانک اور تین ماشہ ہے اور جو سے دوگنا یعنی دو سیر آدھ پاؤ اور چھ ماشہ ہے جو کہ صاع کا وزن ہے اور نصف صاع انگریزی سیر کے حساب سے 80 روپیہ بنتا ہے اور ایک روپیہ گیارہ ماشہ اور چار رتی ہے اور ایک سیر آدھ پاؤ نصف چھٹانک ایک تولہ اور تین ماشہ ہے۔‘‘
اور یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اصل صدقۂ فطر میں کَیل یعنی پیمانہ تانبے کا ہے اور مقدار وزن کی جو ضرورت پڑتی ہے تو وہ صرف احتیاط اور حفاظت احکام کے لئے بطور استعانت کے ہے، "كما لا يخفي علي الماهر" اور مقدار وزن میں لامحالہ بقدر قلیل اختلاف معلوم ہوتا ہے اور حقیقت میں صاع کا ارطال وغیرہ کے ساتھ ضبط مشکل ہے، کیونکہ صاع جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں تھا جس سے صدقۂ فطر ادا کیا جاتا تھا وہ مشہور و معروف تھا اب اس کا اندازہ و مقدار وزنا ہوتا ہے۔ مختلف اجناس مثل چنے و مکئی وغیرہ کا صدقہ تو ایسے پیمانہ ہی سے دینا ضروری ہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیمانہ و صاع کے موافق رہے اور جسے یہ میسر نہ ہو تو اس طرح یقین کامل سے ادا کر لے کہ اس سے کم نہ ہو مسک الختام میں ہے:
کہ احتیاطا صدقۂ فطر گندم میں دو سیر انگریزی سے دینا چاہیے اور جو سے صاع دوگنا ہو یعنی دو سیر اور ڈیڑھ چھٹانک اور احتیاطا جو چار سیر دینا چاہیے۔ انتہی۔ اور صاع کو پانچ رطل اور ثلث رطل (5 رطل اور 3 ارطل) کے ساتھ مقرر کرنا اقرب الی الصواب ہے۔ ([1]) صاحب الروضۃ کہتے ہیں:
[1] ۔ یاد رہے صاع ایک پیمانہ ہے جو دو طرح کا ہوتا تھا، ایک حجازی اور دوسرا عراقی، حجازی صاع جس میں 5 رطل اور 3/1 مزید ہوتے ہیں اور یہ وزن 4 مد (اڑھائی کلوگرام) کے مساوی ہوتا ہے اور ایک مد 625 گرام کا۔ ویسے اس کا ضبط ممکن نہیں ہے (کیونکہ یہ ایک پیمانہ ہے ناپنے کا نہ کہ وزن کا) اور عراقی صاع 8 رطل کا ہوتا تھا۔ احناف عراقی صاع کے جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے ائمہ کرام حجازی صاع کے قائل ہیں۔ جن کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو صاع استعمال ہوتا تھا۔ اس کا وزن ساڑھے پانچ (3/1-5) رطل تھا اور پھر اسی صاع پر بعد میں صحابہ کے زمانہ میں بھی عمل رہا ہے۔ (تحفۃ الاحوذی ج 3 ص 280)
احادیث سے یہ امر بالکل واضح ہوتا ہے کہ فطرانہ ایک صاع ہی مسنون ہے۔ خواہ کوئی بھی جنس ہو جب کوئی چیز ہلکے وزن کی ہو تو صاع تھوڑی مقدار سے اور اگر بھاری و ثقیل ہو تو اس میں سے زیادہ وزن سے پورا ہوتا ہے۔ جو خوراک گندم، جَو، چاول، کشمش اور پنیر میں سے زیادہ استعمال ہوتی تو صدقۃ الفطر اسی میں سے ادا کیا جائے گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چھوٹے بڑے آزاد و غلام کی طرف سے ایک صاع طعام یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش نکالتے تھے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں نصف صاع گندم کو پورے صاع جو کے برابر کر دیا۔ اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا:
«أَمّا أَنا فلا أَزالُ أُخْرجُهُ كما كنتُ أُخرجُهُ في زمن رسول الله - صلى الله عليه وسلم -». ولأبي داودَ «لا أُخْرِجُ أَبداً إلا صاعاً»
کہ میں تو اتنا ہی فطرانہ ہر جنس سے ادا کروں گا جتنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ادا کیا کرتا تھا۔ ابوداؤد میں ہے کہ: میں تو ہمیشہ ایک صاع ہی نکالوں گا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد کی نسبت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ظاہر حدیث پر عمل کرنا یقینا راجح ہے، جنہوں نے صاع کا اعتبار کیا ہے جنس کی گرانی اور ارزانی کا نہیں، جبکہ دوسرے حضرات نے صاع کا نہیں بلکہ اشیاء کی قیمت کا اعتبار کیا ہے یہی رائے شیخ صفی الرحمٰن حفظہ اللہ نے شرح بلوغ المرام ج 1 ص 412 میں قائم کی ہے اور مؤلف رحمۃ اللہ علیہ کا احتیاطا جو دو گنا یعنی چار سیر والا قول محلِ نظر ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔ (خلیق)