کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 124
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وَلا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ، أَوْ إِنَاثًا ۔ كذا فى ابى داود والترمذى والنسائى والمشكاة وغيرها وكذا فى الشروح الكبار مثل فتح البارى وغيره (ترمذی 2؍92 ارواء الغلیل 4؍391، مشکوٰۃ البانی 2؍1208)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے کوئی حرج نہیں خواہ نر ہو یا مادہ۔‘‘ (ابوداود، ترمذی وغیرہ)
اور اذان کا حکم یہ ہے کہ داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مولود اُم الصبیان (ایک بیماری ہے جس سے غشی کے دورے پڑتے ہیں) سے محفوظ رہے گا۔‘‘
(فى مسند ابى يعلى الموصلى عن الحسين رضى الله عنه مرفوعا من ولدله ([1]) ولد فاذن فى اذنه اليمنى و اقام فى اذنه يسرى لم تضره ام الصبيان ([2]) رواه فى جامع الصغير و كذا فى المرقاة وفى شروع السنة: ان عمر بن عبدالعزيز كان يؤذن فى اليمنى و يقيم فى اليسرى اذا ولد الصبى۔ انتهى
’’مسند ابو یعلی الموصلی میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مرفوعا
[1] ۔یہ روایت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ اس سند میں جبارہ بن مغلس ضعیف ہے اور یحییٰ بن العلاء متھم بالوضع اور طلحہ بن عبیداللہ مجہول ہے۔ مسند ابی یعلی 12/150، تحقیق مولانا ارشاد الحق اثری۔
درست بات أذّن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة رافع عن ابيه۔
مزید (مسند احمد 12/151، مصابیح 13-146، ابوداؤد ادب 5/333، ترمذی احمد شاکر 4/97، مسند احمد 6/9، شرح السنہ 11/273، مصنف عبدالرزاق 4/336، مشکوٰۃ البانی 2/1209) ۔۔۔ (جاوید)
[2] ۔ اسے صاحب التلخیص الحبیر حافظ ابن حجر العسقلانی نے بھی اسے درج کیا ہے اور اس پر کلام نہیں کیا۔ بحوالہ منھاج المسلم، مرتب: للشیخ الجزائری۔ (خلیق)