کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 121
’’دوسرا مسئلہ یہ کہ اس (عقیقہ) کی وہی شروط ہیں جو قربانی میں پائی جاتی ہیں اور اس مسئلہ میں شافعیہ کے دو قول ہیں اور دو بکریوں کے اطلاق سے شروط کے معدوم ہونے پر استدلال کیا گیا ہے جو کہ صحیح مذہب ہے لیکن یہ استدلال اطلاق کی وجہ سے نہیں بلکہ عدم دلیل کی بنا پر ہے جو ان مذکورہ شرائط و عیوب پر دلالت کریں جو قربانی میں پائی جاتی ہیں۔‘‘ (نیل الاوطار) عقیقہ کے گوشت کا حکم: عقیقہ کے گوشت کا حکم قربانی جیسا ہے یعنی کرنے والا خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے، یہ جو مشہور ہے کہ باپ عقیقہ کا گوشت نہ کھائے بالکل بے اصل ہے۔ اسی طرح عقیقہ سے دائیہ کو مروجہ طریق پر دینا ضروری نہیں لیکن اگر وہ محتاجوں کے زمرہ میں آتی ہو تو مستحق ہو گی، چنانچہ اس بارے میں شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی ایسا ہی صادر ہو چکا ہے۔ نیز لڑکے کا سر منڈانا اس کے بالوں کے برابر چاندی وزن کر کے خیرات کرنا اور اس روز نام رکھنا بھی سنت ہے اور لوازماتِ عقیقہ سے ہے، جیسا کہ منتقی میں ہے: عَنْ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ لَمَّا وُلِدَ أَرَادَتْ أُمُّهُ فَاطِمَةُ أَنْ تَعُقَّ عَنْهُ بِكَبْشَيْنِ، فَقَالَ: «لَا تَعُقِّي عَنْهُ، وَلَكِنْ احْلِقِي شَعْرَ رَأْسِهِ، ثُمَّ تَصَدَّقِي بِوَزْنِهِ مِنَ الْوَرِقِ ، ثُمَّ وُلِدَ حُسَيْنٌ بَعْدَ ذَلِكَ فَصَنَعَتْ مِثْلَ ذَلِكَ ۔ (رواه احمد كذا فى منتقى الاخبار) (نیل الاوطار 5؍144) ’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو ان کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کی طرف سے دو مینڈھوں کے عقیقہ کرنے کا ارادہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی طرف سے عقیقہ نہ