کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 116
التفويض الى الاختيار وبين الفعل الذى وقع فيه التفويض سنة) (نیل الاوطار 5؍140) ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان " فأهريقوا عنه دما " اور دوسری احادیث سے قائلین وجوب نے استدلال لیا ہے اور وہ ظاہری اور حسن بصری ہیں۔ سادات جمہور اور ان کے علاوہ کے نزدیک سنت ہے اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نہ فرض ہے نہ سنت اور کہا گیا کہ ان کے نزدیک نفل ہے۔ جمہور نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’ جسے پسند ہو کہ وہ اپنے بچے کی طرف سے ذبح کرے تو وہ کر لے‘‘ جو آئندہ آئے گا، اور اختیار دینا عدم وجوب کا متقاضی ہے، سو یہ ایسا قرینۂ صارفہ ہے جو اس قسم کے اوامر کو وجوب سے استحباب کی طرف تحویل کر دیتا ہے اور اس حدیث سے عدم وجوب سے سنیت کا استدلال کیا گیا ہے اور یہ بات مخفی نہیں ہے کہ فعل اختیاری اور فعل مسنون میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ (نیل الاوطار) عقیقہ کا وقت: بچہ پیدا ہونے کے ساتویں، چودھویں یا اکیسویں روز عقیقہ کرنا بہتر ہے۔ عن سمرة رضى الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ، تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ ۔رواه الخمسة والترمذى۔ (منتقى الاخبار) ويدل على ذلك ما اخرجه البيهقى عن عبدالله بن بريدة عن ابيه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الْعَقِيقَةُ تُذْبَحُ لِسَبْعٍ، أَوْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ، أَوْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ ([1]) (نیل الاوطار5؍140،
[1] ۔عقیقہ ساتویں روز کرنا ہی سنت ہے جس طرح سے حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے جبکہ ساتویں، چودھویں اور اکیسویں روز عقیقہ والی حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے اور اس کے ضعف کا سبب اسماعیل بن مسلم المکی ہے جس کے بارے میں صاحب بلوغ الامانی نے کہا ہے: وهو ضعيف لكثرة غلطه و وهمه۔ کہ وہ اپنے کثرتِ اغلاط و اوھام کی بنا پر ضعیف ہے۔ (بلوغ الامانی من اسرار الفتح الربانی، ج 13 ص 129) (خلیق)