کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 115
جانور ذبح کرو اور اس سے ایذا کو (یعنی حجامت وغیرہ بنوا کر) دور کرو۔ مسلم کے علاوہ جماعت نے روایت کیا۔
یہ امر وجوب کے لئے نہیں ہے کہ اس سے وجوبِ عقیقہ پر دلیل لائی جائے، کیونکہ دوسری حدیث میں ہے (جو آئندہ آئے گی) کہ جو شخص عقیقہ کرنا چاہے کر لے، اس اختیار دینے سے صراحۃ معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ واجب نہیں ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ حدیث سابق کے امر کے صیغہ کو وجوب پر محمول نہ کیا جائے، تاکہ دونوں حدیثوں میں مطابقت ہو سکے۔
احناف کے نزدیک عقیقہ کا حکم:
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عقیقہ مستحب ہے سنت نہیں، مگر یہ استدلال درست نہیں کیونکہ کسی فعل میں شرع کی طرف سے اختیار سنت کے مخالف نہیں، اس لئے کہ سنت میں بھی اختیار حاصل ہوتا ہے، بلکہ مستحب وہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی لیا اور کبھی چھوڑا ہو۔ كما لا يخفي علي الماهر بالاصول۔
(قوله "فأهريقوا عنه دما" تمسك بهذا و بقية الاحاديث القائلون بانها واجبة، وهم الظاهرية والحسن بصرى، وذهب الجمهور من العترة وغيرهم الى انها سنة وذهب ابوحنيفة الى انها ليست فرضا ولا سنة، وذهب ابوحنيفة الى انها ليست فرضا ولا سنة، وقيل انها عنده تطوع، احتج الجمهور بقوله صلى الله عليه وسلم: من أحب أن ينسك عن ولده , فليفعل، وسيأتى، وذلك يقتضى عدم الوجوب لتفويضه الى الاختيار فيكون قرينة صارفة لاوامر نحوها عن الوجوب والسنية، ولكنه لا يخفى انه لا منافاة بين