کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 114
احکام عقیقہ
سوال:
علمائے دین عقیقہ کے متعلق کیا فرماتے ہیں کہ وہ واجب، سنت یا مستحب ہے اور اس کے کیا کیا احکام ہیں؟ بينوا توجروا
عقیقہ کا حکم
جواب:
جمہور کے نزدیک عقیقہ کرنا سنت ہے واجب نہیں اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مستحب ہے اور بعض کے نزدیک واجب ہے، مگر قول جمہور زیادہ صحیح اور درست ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کرنا ثابت ہے اور اس کا ترک ثابت نہیں ،نیز جب وجوب کی کوئی دلیل نہیں تو سنت ہوا۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیز بغیر ترک کے ثابت ہو وہ سنت ہے جب تک کہ وجوب کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور جو حدیث میں بلفظ ' امر ' وارد ہے کہ لڑکے کی طرف سے عقیقہ کرو، جیسا کہ حضرت سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مَعَ الْغُلامِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى) (رواہ الجماعۃ الا مسلما، کذا فی منتقی الاخبار، صحیح ابن ماجہ البانی 2؍206، ترمذی البانی 2؍92، ارواء الغلیل حدیث 1171 بیہقی 8؍299)
’’ لڑکے کے پیدا ہونے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے