کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 105
قوله "إلا مسنة" قال العلماء المسنة هي الثنية من كل شيء من الإبل والبقر والغنم (انتهى) والثنى من الشاة ما دخل فى السنة الثانية، كذا فى مفردات القرآن الامام الراغب القاسم الحسين وهو القدم على الغزالى والقاضى ناصر الدين بيضاوى" (نیل اوطار 5؍121، مفردات القرآن 80) ’’مسنة ۔ علماء کہتے ہیں مثنہ ہر وہ اونٹ، گائے اور بکری ہے جو دو دانت والا ہو اور بکری کا ’’مثنی ‘‘ جو دوسرے سال میں داخل ہو جائے۔‘‘ منتھی الارب میں ہے: مثنی کفنی شتر در سال ششم درآمدہ۔ ’’مثنی فنی کی طرح ہے، اونٹ کا مثنی وہ ہے جو چھٹے سال میں داخل ہو گیا۔‘‘ والثنى منها ومن المعز ابن سنة ومن البقر ابن سنتين ومن الابل ابن خمس سنين و يدخل فى البقر الجاموس لانه من جنسه۔ (الھدایۃ 4؍433) ’’اور مثنی بکری کا ایک سال کا ہوتا ہے اور گائے کا دو سال کا اور اونٹ کا پانچ سال کا اور گائے میں بھینس بھی داخل ہے، کیونکہ وہ اس جنس سے ہے۔‘‘ (ہدایہ) جذعہ: بھیڑ میں سے اسے کہتے ہیں جو سال سے کم ہو۔ ([1])
[1] ۔’’مسنہ‘‘کے بارے میں علامہ عبیداللہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ: اہل لغت اور اصحابِ شروح الحدیث والفقہ کے اقوال سے یہ بات عیاں ہے کہ: ’’مسنہ‘‘ اور ’’مسن‘‘ اسنان سے ماخوذ ہے جو کہ دانتوں میں سے ایک دانت کا ظاہر ہو جانا ہے، نیز مسن، ثنی، مسنۃ، ثنیہ ایک ہی چیز ہے۔ اونٹ، گائے اور بکری میں سے ’’مسن‘‘ وہ ہے جو اپنے منہ کے اگلے دانت گرا دے۔ مسن اور ثنی (یعنی دانتا) میں اور قربانی کی عمر کے مفہوم کا اعتبار دانتوں کے گرانے، دانت کے اُگنے اور اس کے ظاہر ہونے پر ہے اور اس کی عمر کی طرف التفات نہ کیا جائے گا اور اونٹ، گائے اور بکری کی قربانی صرف اسی صورت میں جائز ہو گی جبکہ اس کا دانت گر جائے اور ان مذکورہ جانوروں کا دانت بھی ظاہر ہو جائے، نیز جذعہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ بھیڑ سے مراد وہ ہے جس کا تقریبا ایک سال ہو جائے۔ (مرعاۃ المفاتیح ج 2 ص 353) ۔۔۔ (خلیق)