کتاب: فتاوی نواب محمد صدیق حسن خان - صفحہ 103
( إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ ، َمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا ، وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ عَجَّلَهُ لأَهْلِهِ ، لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ۔) الحدیث ۔
(رواہ البخاری، فتح الباری 10؍33، مسلم 3؍1553)
’’آج کے روز ہمارا سب سے پہلا عمل نماز پڑھنا ہے پھر واپس لوٹ کر قربانی کریں گے جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا (سنت کے موافق عمل کیا) اور جس نے (نماز سے) پہلے قربانی کی تو وہ صرف گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کو پیش کیا ہے، قربانی میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘
احناف کے نزدیک بھی ماسوا دیہات میں رہنے والوں کے یہی وقت ہے۔ جیسا کہ ہدایہ میں ہے:
" وقت الاضحية يدخل بطلوع الفجر من يوم النحر الا انه لا يجوز لأهل الامصار الذبح حتى يصلى الامام العيد، فاما اهل السواد فيذبحون بعد الفجر " (ہدایہ 4؍429)
’’قربانی کا وقت تو دسویں ذوالحج کے طلوع فجر ہی سے شروع ہو جاتا ہے، لیکن شہر والوں کے لئے قربانی کرنا جائز نہیں ہے، حتیٰ کہ امام عید کی نماز سے فارغ ہو جائے، البتہ دیہاتوں والے طلوع فجر کے بعد قربانی کر لیں۔‘‘ ([1])
[1] ۔قربانی میں دیہاتوں اور شہریوں کا فرق کئی دوسرے ائمہ کے نزدیک ساقط الاعتبار ہے لہذا حق اور صحیح بات یہی ہے کہ نمازِ عید کے بعد قربانی کا جانور ذبح کیا جائے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قربانی کا وقت امام کی نماز سے قبل ناجائز اور نماز کے بعد امام کی قربانی سے قبل جائز ہے، خواہ وہ شہروں کے باسی ہوں یا دیہاتوں کے رہنے والے، یہی رائے امام حسن رحمۃ اللہ علیہ، اوزاعی اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ نیز
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طلوع شمس یا طلوع فجر کے قائلین کی رائے پر عمل کرنا درست نہیں ہے، جو منقول ہے کہ یوم النحر ’’ذبح کا دن‘‘ ہے اس لئے کہ وہ مثل عموم کے ہے تو اس باب کی روایات اسے خاص کرتی ہیں سو عموم کو خاص پر بنا کیا جائے گا۔ (نیل الاوطار ج 3 ص 141)
اور علامہ شیخ عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے امام احمد ہی کے مذہب کو ترجیح دی ہے کہ قربانی کا وقت طلوعِ شمس یاطلوع فجر کی بجائے نماز عید سے مشروط ہے (جیسا کہ حدیث براء رضی اللہ عنہ اور اس میں اہل الامصار اور اہل البوادی برابر ہیں۔ (مرعاۃ المفاتیح ج 2 ص 336) (خلیق)