کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 94
’’تم کمزور نہ پڑجاؤ اورصلح کی دعوت نہ دو، تم ہی بلند تر ہو، اللہ تمہارے ساتھ ہے، وہ تمہارے عملوں میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔‘‘ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی تفسیر متعدد مواقع پر پیش فرمائی۔ حدیبیہ کے موقع پر قریش سے صلح کی‘ مدینہ منوررہ میں جنگ خندق سے پہلے یہود کے ساتھ صلح کی اور غزوہ تبوک کے موقع پر روم کے نصاریٰ سے صلح کی۔ چانچہ اس کے واضح اثرات اور عظیم نتائج سامنے آئے، امن قائم ہوا، انسانی جانوں کی حفاظت ہوئی‘ حق کو مدد ہوئی اور اسے زمین میں شوکت حاصل ہوئی‘ لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے اور سب لوگ اپنی زندگی میں دینی اور دنیوی طور پر اس پر عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی وجہ سے خوشحالی‘ ترقی‘ اسلامی سلطنت کی قوت اور اسلام دامن کی دولت سے بہرورعلاقوں کی وسعت کے خوشگوار نتائج حاصل ہوئے۔ تاریخ انسانیت اور حیات انسانی کی عملی صورت حال اس کی سب سے مضبوط دلیل اور واضح گواہی ہے، بشرطیکہ انصاف سے کام لیا جائے اور توجہ سے بات سنی جائے، مزاج میں اعتدال ہو اور سوچ افراط وتفریط سے پاک ہو، عصبیت اور خواہ مخواہ کے جھگڑے سے پرہیز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی سیدھی راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔ وہی ہمیں کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ (۵) دوروز‘ نصیری‘ اسماعیلی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے بابی اور بہائی سب کے سب قرآن وحدیث کی نصوص کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے ہیں اور اپنے لئے ایسی خود ساختہ شریعت تیار کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کی۔ انہوں نے اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگ کر تحریف وتبدیل کا وہ راستہ اختیار کیا ہے جو یہودونصاریٰ نے اختیار کیا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے پہلے فتنے کے لیڈر عبداللہ بن سباحمیری کی تقلید کی ہے جو بدعت‘ گمراہی اور تفریق بین المسلمین کا علم بردار تھا۔ اس کی شرارت اور گمراہی نے خوب پر پزرے نکالے اور اس کیوجہ سے بہت سے گروہ گمراہ ہوگئے اور انہو ں نے کفریہ عقائد اختیار کرلئے اور مسلمانوں میں اختلاف جڑ پکڑ گیا۔ اب اس قسم کی کوشش کی کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ یہ لوگ گمراہی‘ الحاد‘ کفر، مسلمانوں سے حسد اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے لحاظ سے یہودونصاریٰ سے گہری مشابہت رکھتے ہیں، اگرچہ ان کے درمیان آپس میں تعلقات بھی ہوں، ان کی جماعتیں الگ الگ ہوں، ان کے مقاصد اور خواہشات مختلف ہوں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جسے یہودونصاریٰ آپس میں اختلاف رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد م صر کی جامع ازھر کے بعض علماء نے ایران کے رافضی ’’قمی‘‘ سے قربت کی کافی کوشش کی اور متعدد پاکیزوں دل سچے علماء بھی اس دھوکے میں آگئے، حتیٰ کہ انہوں نے ’’التقریب‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ لیکن جلد ہی انہیں حقیقت حال کا علم ہوگیا۔ لہٰذا ’’جماعت التقریب‘‘ کے نام سے رسالہ بھی جاری کیا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ دل ایک دسرے سے دور ہیں، خیالات اور آراء میں بے حد اختلاف ہے اور عقائد باہم متضاد ہیں، تو پھر اجتماع ضدین کس طرح ممکن ہے؟ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭