کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 93
بلکہ یہ اہل کتاب اگر اللہ‘رسول اور مومنوں سے عداوت رکھنے میں مشرکوں سے بڑھ کر نہیں، تو ان سے کم بھی نہیں، اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے بارے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی ہے: ﴿فَلَا تُطِعْ الْمُکَذِّبِیْنَ ٭ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ﴾ (القلم۶۸؍۸۔۹) ’’جھٹلانے والو ں کی یہ بات نہ مانئے۔ یہ چاہتے ہیں کہ آپ نرم ہوجائیں تو وہ بھی نرم ہوجائیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ٭لَااَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ٭وَلَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ ٭وَلَا اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ٭وَلَا اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ٭ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾ ’’کہہ دیجئے۔ اے کافرو! جسے تم پوجتے ہو میں نہیں پوجتا اور نہ تم اس کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں۔ نہ میں ان کو پوجنے والا ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہوا اور نہ تم اسکی عبادت کرنیوالے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین میرے لئے میرا دین۔‘‘ جو شخص اسلام اور یہودیت یا اسلام اور مسیحیت کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتا ہے اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی شخص دومتناقض امور کو جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہو، یا کوئی شخص حق اور باطل کو باہم اکٹھا کرنا چاہتا ہو، یا کفراور ایمان کوایک کرنا چاہتا ہو۔ اس کی تو وہی مثال ہے جو اس شعر میں بیا کی گئی ہے۔ أَیُّھَا الْمُنْکِحُ الثُّرَیَّا سُھَیْلاً عَمَّرَکَ اللّٰہُ کَیْفَ یَلْتَقِیَانِ ھِیَ شَامِیَّۃٌ أِذَا مَا اسْتَقَلَّتْ وَسُھَیْلٌ أِذَا اسْتَقَلَّ یَمَانِ ’’اے ثریا (ستارے) کا نکاح سہیل (ستارے) سے کرنے والے! تجھے اللہ آباد رکھے! یہ آپس میں کس طرح ملیں گے؟ ثریا جب بلند ہوتی ہے تو شام کی طرف ہوتی ہے اور سہیل جب بلند ہوتا ہے تو یمن کی طرف ہوتا ہے‘‘ (۴) اگر کوئی شخص سوال کر ے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے جنگ کے ہولناک نتائج سے بچنے کیلئے، انسانوں کو زمین میں سفر کا موقع دینے کیلئے ہم ان لوگوں سے جنگ بندی کرلیں یا دقتی طور پر صلح کرلیں تاکہ لوگ روزی کما سکیں، دنیا کو آباد کرسکیں، حق کی طرف بلاسکیں، لوگوں کو سیدھی راہ دکھاسکیں اور انصاف کا عملی نمونہ پیش کرسکیں؟ اگر کوئی یہ بات کہے تو اس میں یہ خیال رکھنا لازمی ہوگا کہ حق کو حق کہا جائے، اس کی تائید کی جائے تاکہ اس کے نتیجہ میں مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے مں نام نہاد مصلحتوں کا شکار ہو کر اللہ کے احکامات اور اپنی خودداری اور عزت نفس سے دست بردار نہ ہوجائیں، بلکہ انہیں چاہئے کہ اپنے عزوشرف کا پورا پورا خیال رکھیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری طرح عمل پیرارہیں۔ قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو پیش نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (الانفال۸؍۶۱) ’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہوجائیں اور اللہ پر اعتماد رکھیں۔ یقیناً وہی (سب کچھ) سننے والا، جاننے وا لا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَلَا تَہِنُوْا وَتَدْعُوْا اِِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ﴾ (محمد۴۸؍۳۵)