کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 91
کچھ بناڈالا۔ ان کا یہ عمل جھوٹ‘ بہتان‘ کفر اور گمراہی پر مبنی ہے۔ اس لئے اللہ کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف اور دیگر تمام اقوام مبعوث ہوئے، تاکہ جس حق کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کردیا جائے اور جو عقیدہ اور احکام انہوں نے خراب کردئیے تھے ان کی اصلاح کر دی جائے اور اس طرح انہیں بھی اوردوسروں کو بھی صراط مستقیم کی نشاندہی کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ٭ یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَ یَہْدِیْہِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (المائدۃ۵؍۱۵۔۱۶) ’’اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارارسول آگیا ہے، تم کتاب میں سے جو کچھ چھپاتے تے اس میں سے بہت کچھ وہ تم کو بتاتاہے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرجاتاہے۔ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کی اتباع کرتے ہیں۔ وہ انہیں اللہ کے حکم سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے اور انہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (المائدۃ۵؍۱۹) ’’اے اہل کتاب! سلسئلہ رسالت میں ایک وقفہ کے بعد تمہارے پاس ہمارا رسول آگیا ہے جو تمہیں وضاحت سے (سب کچھ) بتاتا ہے تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا یا تببیہ کرنے والا نہیں آیا۔ تو (اب) تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور متنبہ کرنے والا آچکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے تو ان کیلئے واضح کر دیا تھا لیکن انہوں نے محض حسدکی وجہ سے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے اسے قبول نہ کیا اور دوستوں کو بھی اسے قبول کرنے سے منع کیا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ﴾ (البقرۃ۲؍۱۰۹) ’’بہت سے اہل کتاب اپنے دلوں سے حسد کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں دوبارہ کافر بنادیں، جب کہ ان کے لئے حق واضح ہوچکا ہے۔‘‘ نیز ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ لَمَّا جَآئَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ۲؍۸۹) ’’جب ان کے پاس اللہ کے پاس سے کتاب آگئی؟ جو اس (صحیح علم) کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس موجود ہے اور وہ اس سے پہلے کافروں پر فتح طلب کرتے تھے۔ تو جب ان کے پاس وہ (کتاب) آئی جسے انہوں نے پہچان لیا (کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے) تو انہوں نے اس کا انکار کیا، پس اللہ کی لعنت ہے کافروں پر۔‘‘