کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 72
(۶) انہیں مسلمانو ں کی مسجدوں میں تقریر کرنے یا لیکچر دینے کی اجاز ت نہیں دینی چاہئے، کیونکہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ وہ (عوام کے ذہنوں میں اسلام کے متعلق) شکوک وشبہات پیدا کریں گے اور اللہ کے دین کو غلط رنگ میں پیش کریں گے یا حاضری کی نظر میں ان کامقام بن جائے گا جس کی وجہ سے بہت سے فتنے پیش آسکتے ہیں اور بڑی خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔ انہی اسباب کی بنا پر خاص مسلمانو ں کے جلسوں اور اجتماعات میں ان کی تقریر یا لیکچر کا بھی یہی حکم ہے۔ (۷۔۸) حکومت نے عوام کے جو اجتماع کے جو مقامات بنائے ہیں اور وہ مناظرات یا علمی مجالس اور مذہبی معاملات پر تقریر کرنے کے لئے ان کاانتظام کرتی ہے، ان مقامات میں ہم غیر مسلموں کے ساتھ جمع ہوسکتے ہیں، بشرطیکہ جو مسلمان عالم ان اجتماعات میں شریک ہو وہ اسلام کے عقائد‘ ارکان اور آداب بیان کرے اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اسلام کے متعلق جو شبہات پیش کریں وہ (عالم) ان کا جواب دے اور وہ (لوگ) جن تقریروں میں اسلام کو غلط رنگ میں پیش کریں، ان کی تردید کرے اور اس کے علاوہ حق کی تائید اور دفاع کے لئے مناسب اقدامات کرے۔ لیکن جو مسلمان دین سے ناواقف ہے یا ان نے مناسب تیاری نہیں کی یا ا سکی فکری سطح اتنی بلند نہیں یا دین کے متعلق ناکافی معلومات رکھتاہے، اسے اس قسم کے اجتماعات میں شریک نہیں ہونا چاہئے۔تاکہ وہ فتنوں سے محفوظ رہے اور دین کے متعلق شکوک وشبہات کا شکا رنہ ہوجائے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۳۷۸۶) اہل کتاب سے کیساسلوک کرنا چاہئے؟ سوال غیر مسلم اہل کتاب جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ جزیہ نہیں دیتے بلکہ مسلمانوں سے دشمنی کرتے ہیں، جب بھی مسلمانو ں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کاموقع ملے وہ اس میں ضرور شریک ہوتے ہیں، خواہ کھل کر شریک ہوں یا خفیہ طور پر۔ اس قسم کے افراد سے کس طرح کا برتاؤکرناچاہئے۔ اس مقام پر مسلمان ’’عدم موالات‘‘ کا اظہار کس طرح کرسکتاہے؟ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: جو غیر مسلم شخص مسلمانوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہے اور انہیں تنگ کرنے کی کوشش نہ کرے، ہم بھی اس سے اچھا سکوک کریں گے اور اس کے متعلق ہم پر اسلام کی طرف سے جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ پوری کریں گے، یعنی اس سے بھلائی‘ نصیحت اور حق کی طرف رہنمائی۔ہم اسے دلائل کے ساتھ اسلام کی طرف دعوت پیش کریں گے، شاید وہ اسلام قبول کرلے۔ اگر وہ قبول کرلے تو بہتر ورنہ ہم ان سے وہ فرائض ادا کرنے کا مطالبہ کریں گے جو قرآن وحدیث کی روشنی میں مسلمان ملک کے غیر مسلم باشندے پر عائد ہوتے ہیں۔ اگر وہ لوگ اپنے فرائض اداکرنے سے انکار کریں تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ حتی کہ اسلام غالب اور کفر مغلوب ہوجائے۔ اس کے برعکس جو غیر مسلم سرکشی کا رویہ اختیارکرے، مسلمانوں کو تنگ کرے اور ان کے خلاف سازشیں کرے تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسے اسلام کی دعوت دیں، اگر وہ انکار