کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 71
(۶) کیا وہ ہماری مسجدوں میں تقریر کرسکتے ہی؟ (۷) کیا وہ ہماری تقریبات میں مسجد سے باہر لیکچر ہال میں تقریر کرسکتے ہی؟ (۸) کیا یہ جائز ہے کہ ہم یہودونصاریٰ کے ساتھ ایک عام اجتماع میں شریک ہوں جسے حکومت آسٹریلیا یا حکومت کاکوئی ادارہ منعقد کرتاہے اور کوئی ایک خاص موضوع متعین کیا جاتا ہے جس پر ہر مقرر اپنے مذہب کی روشنی میں تقریر کرتا ہے۔ مثلاً ’’مذاہب میں امن وسلامتی‘‘ ’’مذاہب میں رحمت کا تصور‘‘اور م’’مذاہب میں عبادت کا مطلب‘‘ وغیرہ۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: (۱) آپ تالیف قلب کیلئے، وعظ نصیحت کے لئے اور دوسرے دینی مصالح کے پیش نظر ان کے گھروں میں جاسکتے ہیں۔ محبت اور ولاء کے جذبات کے تحت نہیں جاسکتے۔ (۲) ان کے مذہبی رسم ورواج میں شریک ہونا جائز نہیں، کیونکہ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم انہیں صحیح سمجھتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہی‘ اس کے علاوہ اس سے ان کی مذہبی تقریبات کی رونق بڑھتی ہے، جو درست نہیں۔ (۳) جائز تجارتی معاملات میں ان کے ساتھ شریک ہوناجائز ہے جب کہ مسلمان کو خطرہ نہ ہو کہ وہ ان کے ناجائز تجارتی معاملات میں شریک ہوجائے گا، مثلا سود‘ جو اور بیع غرر اور دھوکا فریب وغیرہ۔ لیکن تجارت میں ان کے ساتھ شریک ہونے سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ اس طرح ہم شکوک وشبہات او رحرام کے ارتکاب کے خطرہ سے محفوظ رہیں گے۔ (۴) ہم انہیں اپنے گھروں میں آنے کی اجازت دے سکتے ہیں، بشرطیکہ فتنہ کا احتمال نہ اور اہل خانہ کی عزت وآبرو کو کوئی خطرہ نہ ہو اور یہ اس وقت جائز ہے جب انہیں وعظ ونصیحت کرنا اور انہیں اسلام کی طرف راغب کرنا مقصود ہو۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے حسن سلوک اور ملاقات کے آداب کی پابندی کے مظاہر کو دیکھ کر اسلام کی وسعت ظرفی سے متاثر ہوں اور اسلام قبول کرلیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا اِِلَیْہِمْ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِین٭ اِِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنْ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلٰی اِِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الظَّالِمُوْنَ ﴾ ’’جن لوگو ں نے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھر وں سے نکالا، اللہ تعالیٰ تمہیں ان کیساتھ نیکی اور انصاف (کا سلوک) کرنے سے نہیں روکتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہو ں نے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر (نکالنے والوں سے) تعاون کیا۔ جو ان سے دوستی کریں گے وہی (لوگ) ظالم ہیں۔‘‘ (۵) وہ مسجد حرام میں داخل ہوسکتے ہیں نہ حرم مکہ کی حدود میں داخل ہوسکتے ہیں، مسلمانوں کے لئے جائز نہیں کہ انہیں وہاں آنے دیں۔ اس کے علاوہ جو مقامات عبادت کیلئے بنائے گئے ہیں، وہاں وہ وعظ اور اسلامی لیکچر سننے کے لے آسکتے ہیں، شائد اللہ تعالیٰ ان کے دل میں ہماری محبت پید فرمادے اور ان کے دل نرم ہوجائیں (اور انہیں توبہ کی توفق مل جائے) اور اللہ ان کی توبہ قبول فرمالے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً مغفرت کرنے والا مہربان ہے۔