کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 65
(۳) صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا: (أِذَا شَھِدَتْ أِحْدَاکُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِیِّبَا) ’’تم میں سے کوئی عورت جب مسجد میں آئے تو خوشبو کو ہاتھ نہ لگائے۔‘‘ [1] سنن ابی داؤد‘ مسند امام احمد اور مسند امام شافعی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لاَ تَمْتَعُوا أِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ وَلٰکِنْ لِیَخْرُجْنَ وَھُنَّ تَفِلَاتٌ) ’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجد (میں آنے) سے منع نہ کرو، لیکن وہ خوشبو لگائے بغیر آئیں۔‘‘[2] اس حدیث کی شرح کرتے ہوۂ ے ابن دقیق العید فرماتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عورت مسجد میں جانا چاہتی ہو اسے خوشبو استعمال کرنا حرام ہے، کیونکہ اس سے مردوں کے صنفی جذبات کو انگیخت ہوتی ہے او ربسا اوقات اس سے عورتوں میں صنفی جذبات بیدار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمات ہیں: ’’اس قسم کی دوسری چیزوں کا حکم بھی خوشبو والا ہی ہوگا، مثلاً عمدہ لباس اور وہ زیور جس کی موجودگی کا دوسروں کو احسا س ہو اور فاخرانہ ہئیت۔ ابن حجر علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’مردوں سے اختلاط کا بھی یہی حکم ہے (یعنی حرام ہے۔)‘‘ خطائی نے معالم السنن نے فرمایا: ’’تفل‘‘ کا مطلب ناپسندیدہ بو ہے اور جب عورت نے خوشبو نہ لگائی ہو تو اسے تفلۃ کہتے ہیں اور (اور جمع کے لئے کہتے ہیں) ’’نساء تفلات‘‘[3] (حدیث میں یہی لفظ آیا ہے) (۴) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ)) ( راوه الترمذى فی کتاب الادب) ’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔‘‘[4] اس حدیث کو امام بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے ۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کومردوں کے لیے فتنہ قرار دیا ہے ۔ پھر فتنہ میں ڈالنے والی چیز اور فتنہ میں پڑنے والےشخص کوکس طرح ایک جگہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے ؟ یہ بالکل جائز نہیں۔ (۵) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (أِنَّ الدُّنْیَا حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ وَأِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِیھَا فَنَاظِرٌ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ فَاتَّقُو الدُّنْیَا وَاتَّقُو النِّسَائَ فَأِنَّ أَوَّلَ فِتْنَۃِ بَنِی أِسْرَائِیلَ کَانَتْ فِی النِّسَائِ)
[1] مسند احمد ج:۲، ص:۳۲۳۔ صحیح مسلم حدیث نمبر:۴۴۳۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۔۱۶۸۔ صحیح ابن حبان حدیث نمبر: ۱۲۱۲، ۱۲۱۵۔ [2] مسند احمدج: ۲، ص: ۴۷۵، ج:۵، ۱۹۲، ۱۹۳، ابی داؤد حدیث نمبر: ۵۶۵۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر ۱۶۷۹۔ سنن دارمی حدیث نمبر ۱۲۸۲۔ صحیح ابن حبان حدیث نمبر: ۲۲۱۱، ۲۲۱۴۔ [3] احکام الاحکام ج: ۲، ص:۱۳۹۔ [4] مسنداحمد ج:۵،ص۲۰۰، ۲۱۰۔ صحیح بخاری حدیث نمبر : ۵۰۶۹۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۷۴۰، ۲۷۴۱۔ سنن کبری نسائی بحوالہ تحفۃ الاشرف ۱؍ ۴۹۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر : ۳۹۹۸۔ سنن بیہقی ج:۷، ص: ۹۱۔ جامع ترمذ حدیث نمبر: ۲۷۸۰۔