کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 61
پہلی دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ رَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ ہَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبٍّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْن﴾ (یوسف ۱۲/۲۳) ’’اور اسے (یوسف علیہ السلام)کو اس عورت نے اس کی ذات کے متعلق بہکایا جس (عورت) کے گھر میں وہ تھا اور اس (عورت) نے (تمام) دروازے بند کرلئے او رکہا: ’’آجا۔‘‘ اسن ؑنے کہا: ’’اللہ کی پناہ،وہ میرا مالک ہے، اس نے مجھے اپنا ٹھکانا دیا، حقیقت یہ ہے کہ ظالم کامیاب نہیں ہوتے۔‘‘ اس آیت سے دلیل اس طرح بنتی ہے کہ جب عزیز مصر کی بیوی کا یوسف علیہ السلام سے میل جول ہوا، تو اس کے نتیجے میں اس کے دل کے پوشیدہ جذبات ظاہر ہوگئے۔ اسی لئے اس نے آپ سے جنسی عمل کا مطالبہ کرڈالا۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی رحمت کے ساتھ گناہ سے محفوظ رکھا۔ جیسے کہ ارشادہے: ﴿فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَہُنَّ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (یوسف ۱۲/۳۴) ’’پس اس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی اور اس نے عورتوں کی (بری) تدبیر کو اس سے دور ہٹا دیا۔ بے شک وہ (اللہ) سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ اسی طرح جب مردوں کا عورتوں سے میل جول ہوتا ہے تو دونوں جنسوں سے ہر فرد دوسری سری جنس کے پسندیدہ فرد کو منتخب کرلیتا ہے، پھر اس کے حصول کے لئے تمام (جائز وناجائز) طریقے اختیار کرتاہے۔ ﴿قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکَی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ٭ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ ﴾ (النور۲۴/۳۰۔۳۱) ’’(اے پیغمبر) مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کو خبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں…‘‘ وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہ ان کیلئے پاکیزگی کا باعث ہے۔ شارع علیہ السلام نے محض اچانک نظر پڑجانے کی صورت میں نرمی فرمائی ہے۔ مستدرک حاکم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (بَا عَلِیُّ لاَ تُبْعِ النَّظْرَۃَ النَّظَرَۃَ فَأِنَّمَا لَکَ الأُولٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الٓاخِرَۃُ) ’’اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈال۔ تجھے صرف پہلی نظر کی اجازت ہے، دوسری کی نہیں۔‘‘[1] امام حاکم نے یہ حدیث بیان کر کے فرمایا’’ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اسے بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا‘‘ امام ذھبیؒ نے تلخیص میں اس موافقت کی ہے۔ اس مفہوم کی اور بھی کئی حدیثیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نظر نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر ڈالنا بدکاری میں شامل ہے۔ حضرت
[1] مستدرک حاکم ج: ۳، ص: ۱۹۴، مسند احمد حدیث نمبر: ۱۳۶۹، ج: ۵، ص: ۳۵۳، سنن ابو داؤد حدیث نمبر: ۲۱۴۹، ترمذی حدیث نمبر: ۲۷۷۷۔ سنن دارمی ۲؍۲۹۸ مصنف ابن ابی شبیہ ۳۲۴۲