کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 39
نیت کرتے ہوئے مسجد عمرہ میں دورکعت نماز ادا کی۔ اس طرح میری نیت حج قرآن کے بجائے حج تمتع کی بن گئی۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کرنے سے میرے حج میں تو کوئی خرابی نہیں آئی‘ جب کہ میں نے جانور کی قربانی بھی دی ہے؟ اور میں نے حج کے موسم میں اپنی والدہ کی طرف سے جو عمرہ کیا ہے کیا وہ صحیح ہے یا ایک حج کے موسم میں دو عمرے کرنا جائز نہی؟ فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد انسان سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو کیا اس سے حج پر کوئی اثر پڑتا ہے؟ اور ہم غلطی سے بہر حال پاک اور معصوم تو ہیں نہیں۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: (۱) آپ کا حج‘ تمتع کی قسم ہے اور آپ نے عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول کر اچھا کیا۔ (۲) آپ نے اپنی طرف سے عمرہ ادا کرنے کے بعد والدہ کی طرف سے جو عمرہ ادا کیا ہے وہ صحیح ہے۔ بشرطیکہ آپ نے اپنے عمرہ میں طواف اور سعی کے بعد سر کے بال اتروا کر یا چھوٹے کر کے احرام کھولنے کے بعد یہ دوسرا عمرہ کیا ہو۔ (۳) کفر کے علاوہ کسی گناہ سے نیک اعمال ضائع نہیں ہوتے۔ اگر کسی نے نیکیاں بھی کی ہیں اور گناہ بھی‘ پھر اس نے توبہ نہیں کی تو قیامت کے دن ان سب کا حساب ہوگا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے گناہ معاف فرمادے۔ البتہ ا سلام ترک کرکے نعوذ باللہ مرتد ہوجانا ایک ایسا گناہ ہے جس سے تمام نیک اعمال کالعدم ہوجاتے ہیں جب کہ کفر کی حالت میں موت آجائے اور جو شخص سچی توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ فضل ورحمت کرتے ہوئے اس کے اعمل کالعدم نہیں فرماتے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْن﴾ (البقرۃ۲/ ۲۱۷) ’’تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے پھر کفر کی حالت ہی میں مرجائے تو یہی لوگ ہیں جن کے عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اوریہی لوگ جہنمی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۶۳۱۰) اسلام کا پیغام سننے والے پر حجت قائم ہوگی سوال اللہ تعالیٰ فرماتے ہی: ﴿وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَرَسُوْلًا﴾ (السراء ۱۷/ ۱۵) ’’ہم عذاب نہیں دیتے حتیٰ کہ رسول بھیجیں۔‘‘ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: اس زمانے میں جس شخص کو اسلام کا پیغام پہنچ گیا اس پر حجت قائم ہوگی اور جسے ا سلام کا پیغام نہیں پہنچا ا س پر حجت قائم نہیں ہوئی۔ جو حکم دوسرے زمانو ں میں تھا، وہی حکم اب بھی ہے اور علماء کا فرض ہے کہ اپنی طاقت کے مطابق تبلیغ