کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 326
باجماعت دعا مانگتے ہوں ۔ لہٰذا اسلام پھیرنے کے بعد نمازیوں کا باجماعت دعا کے لیے جمع ہونا خود ساختہ بدعت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ أَحّدَثَ فِی أَمْرِنَا ہٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ)) ’’ جس نے ہمارے دین میں وہ چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔ ‘‘ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسْ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَرَدٌّ)) ’’ جس نے کوئی ایسا عمل کیاجو ہمارے دین کے مطابق نہیں وہ مردود ہے۔‘‘ ۳۔ اگر مل کرقرآن پڑھنے سے آپ کا یہ مطلب ہے کہ سب مل کر بیک آواز تلاوت کریں تویہ مشروع نہیں۔ کیونکہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم سے نقول نہیں اگر سائل کا یہ مطلب ہے کہ ایک آدمی قرآن پڑھے اور دوسرے سنیں ، یا یہ مطلب ہے کہ ایک جگہ جو لوگ جمع ہیں ان میں سے ہر ایک اپنی اپنی تلاوت کرے اوریہ کوشش نہ کریں کہ حرکات وسکنات اور وقف ووصل وغیرہ میں ان کی آوازیں ہم آہنگ ہوں تو یہ شرعی طورپر درست ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((َمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُونَہٗ بَیْنَہُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْہُمُ الْمَلَآئِکَۃُ وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہٗ)) ’’ جب کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب پڑھتے اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں ، تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے۔ ان کو فرشتے ہیں ، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان (فرشتوں ) میں ان کا ذکر کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا’’ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے قرآن سناؤ۔‘‘ میں نے عرض ک۔’’ (حضور!) میں آپ کو سناؤں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ نازل ہوا ہے؟ ارشاد ’’ میں کسی سے سننا پسند کرتاہوں۔‘‘ میں سورت نساء پڑھنے لگا۔ جب میں آیت پر پہنچا: ﴿فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآئِ شَہِیْدًا﴾ ’’ اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان پر گواہ بناکے لائیں گے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بس کرو۔ (میں نے دیکھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔‘‘ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے۔ ۴۔ نابینا امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے اور اگر یہ امام اپنے مقتویوں سے زیادہ قرآن پڑھنے والا (حافظ یا عالم) ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا افضل ہوگا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے۔ ((یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللہِ…)) ’’ لوگوں کو وہ شخص نماز پڑھائے جو کتاب اللہ کو زیادہ جانتا ہو…‘‘ نابینا ہونا شرعا کوئی عیب نہیں ہے۔ اگر امام غلطیاں کرتاہے، اگر تو یہ غلطی ایسی ہے جس سے معنی میں تبدیلی نہیں آتی ، تو اس قسم کی غلطیاں نہ کرنے