کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 30
لئے آنے والوں کی وجہ سے اس طرح مشغول ہوتے ہیں کہ اپنے کئے کھانا وغیرہ تیا رنہیں کرسکتے۔ سنن ابی داؤد میں حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شہادت کی خبر ملی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اصْنَعُوْا لاَلِ جَعْفَرَ طَعَاماً، فَقَدْ جَائَھُمْ مَا یَشْغَلُھُمْ) (رواہ ترمذی فی کتاب الجنائز) ’’جعفرکے گھر والوں کے لئے کھانا تیا ر کرو، کیونک ہان پر ایک مشغول کرنے والی چیز (غم وحزن) آپڑی ہے۔ یہ حدیث امام احمد‘ ابوداؤد‘ ترمذی اور ابن ماجہ نے بیان کی ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔ باقی رہا میت کے گھر والوں کا کھانا تیار کرنا اور اسے ایک عام رواج بنالینا تو ہماری معلومات کے مطابق ا سکا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے نہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے، بلکہ یہ بدعت ہے لہٰذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اس رواج میں ایک تو یہ برائی ہے کہ یہ اہل جاہلیت کے غلط رواج سے مشابہت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے طریقے کی مخالفت ہے۔ امام احمد بن حنبل علیہ السلام نے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا قول روایت کیا ہے کہ ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میت کے گھر جمع ہونے والے اور دن کے بعد اہل میت کے ہاں آنے والوں کے لئے کھانا تیار کرنے کو ’’نوحہ‘‘ ہی سمجھتے تھے۔ (یعنی جس طرح نوحہ اور بین کرنا حرام ہے، اسی طرح یہ کام بھی صحابہ کی نظر میں حرام تھے) اسی طرح میت کی قبر پر یا وفات کے وقت، یا مت کو گھر سے باہر لے جاتے وقت جانور ذبح کرنا بھی ناجائز ہے۔ امام احمد اور امام ابو داؤد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لاَ عَقْرَ فِیی الاِْسْلَامِ) ’’(قبر پر) جانور ذبح کرنا اسلام میں نہیں ہے‘‘ یعنی وفات کے موقع پر جانور ذبح کرنا درست نہیں۔ (۲) ایسا حکم جو کتاب اللہ یا حدیث نبوی کی صریح سے ثابت ہوا اور نص میں تاویل کی گنجائش نہ ہو، نہ اس مسئلہ میں اجتہاد کی‘ جو مسلمان اس حکم کی مخالفت کرے، یا پختہ ثابت شدہ اجماع کی مخالفت کرے، اسے صحیح شرعی حکم بتایا جائے گا۔ اگر قبول کرلے تو بہت بہتر ہے، لیکن اگر مسئلہ کی وضاحت اور حجت قائم ہونے کے بعد بھی قبول کرنے سے انکار کرے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تبدیل کرنے پر اصرار کرے، تو اس پر کفر کا حکم لگایا جائے اور اس سے مرتدوالا سلوک کیا جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی شخص پانچ نمازوں، یا ان میں سے کسی ایک نماز کی فرضیت کا انکار کرے، یا روزہ ‘حج یا زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے، یا ان کی فرضیت ظاہر کرنے والی قرآن وحدیث کی نصوص کی تاویل کرے اور اجماع امت کی پرواہ نہ کرے، تو اس پر مذکورہ بلالا حکم لگایاجائے گا۔ اس کے برعکس اگر مسئلہ ایسی دلیل سے ثابت ہو کہ خو د اس دلیل کے ثبوت میں اختلاف ہے یا اس نص کی تشریح میں اختلاف کی گنجائش ہے یا اس مسئلہ میں مختلف دلائل ملتے ہیں (اور ترجیح میں اختلاف ہوجاتا ہے) تو یہ اجتہادی اختلاف ہے۔ اس صورت میں کسی کو کافر نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ اجتہاد میں غلطی کرنے والے کو معذور سمجھا جائے گا اور اسے اجتہاد کا ثواب ملے گا اور جس کا اجتہاد صحیح ہوا وہ قابل تعریف ہے، اسے دو ثواب ملیں گے۔ ایک ثواب اس کے اجتہاد کا اور ایک ثواب صحیح مسئلہ سمجھ لینے کا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص مقتدی کے لئے فاتحہ پڑھنا ضروری سمجھتا، دوسرا واجب کہتا ہے۔ اسی طرح جس کے ہاں فوتیدگی ہوجائے وہ کھانا تیار کرتا ہے اور لوگ مل کر کھاتے ہیں۔ اسے کوئی مستحب کہتاہے، کوئی مباح‘ کو ئی مکروہ۔ ایسی صورت میں دوسرے شخص کو کافر کہنا یا اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے احترازو اجتناب کرنا درست نہیں‘‘ اس سے شادی بیاہ کا تعلق رکھنا منع ہے، نہ اس کے ہاتھ ذبح کیا ہوا جانور کھانا حرام ہے۔ اسے نصیحت کرنی چاہئے اور شرعی دلائل کی روشنی میں اس سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ وہ