کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 274
’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ ‘‘اگلا جملہ ’’یا اللہ جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ… الخ‘‘ وہ حدیث میں نہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ سے اس جملہ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ کوئی اضافہ ہے۔‘‘ یہ جملہ کئی لحاظ سے جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ حق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی فرد معین کے ساتھ لازم وملزوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ہر بات میں اس کی اتباع بھی فرض ہوتی۔ (اور ہر بات صرف نبی کی ماننا فرض ہوتی ہے) اور یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہما سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما بلکہ خود ان کے متبعین کا کئی مسائل میں اختلاف ہوا، جن میں نص فریق ثانی کی موافقت میں دستیاب ہوئی۔ مثلاً اس عورت کا مسۂ جس کا خاوند فوت ہوجائے جب کہ یہ عورت امید سے ہو۔ اور یہ جملہ (اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَہُ) ’’اے اللہ! جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر…‘‘ واقعات سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ صفین میں آپ کی حمایت میں جو لوگ آپ کے ساتھ مل کر لڑے انہیں فتح حاصل نہیں ہوئی اور کچھ لوگ آپ کی حمایت میں نہیں لڑے لیکن وہ (دوسرے موقعوں پر) فتح سے محروم نہیں رہے مثلاً سعد رضی اللہ عنہما جنہوں نے عراق فتح کیا، آپ کی حمایت میں نہیں لڑے تھے۔ اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے حامی اور بنو امیہ جو خود حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خلاف لڑتے رہے، انہوں نے کافروں کے بہت سے علاقے فتح کئے اور اللہ نے ان کی مدد فرمائی۔ اسی طرح جملہ (اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ) ’’اے اللہ! جو سے دوستی رکھے تو اس سے دوسرے رکھ اورجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘ یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن مجید نے بیان کیا ہے سب مومن بھائی بھائی ہیں حالانکہ وہ آپس میں لڑے بھی ہیں، ایک دوسرے پر زیادتی بھی کرتے ہیں اور باقی رہا یہ جملہ: (مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ) ’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ ‘‘ بعض محدثین نے تو اسے ضعیف قراردیا ہے مثلاً امام بخاری وغیرہ نے اور بعض نے حسن کہا ہے۔ پس اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ فرمایا بھی ہے تو اس سے مراد ایسی دوستی نہیں ہوتی ہے اور ’’مولاہ‘‘ (دوستی) کا لفظ ’’معاداہ‘‘ (دشمنی) کے مقابلے میں بولاجاتا ہے اورظاہر ہے کہ غیرمسلموں کے خلاف مومنوں سے دوستی رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس سے ناصبیوں کی تردید ہوتی ہے۔‘‘ یہاں تک ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام ہے۔ سوال۲۰: ’’اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کے ہر عقیدہ کی بنیاد کسی آیت یا حدیث شریف پر ہے۔‘‘ جواب: ’’ہم رائے اور قیاس پر عمل نہیں کرتے، بلکہ جس چیز کا ہمیں حکم دیا جاتا ہے اسی پر عمل کرتے ہیں‘‘ اس سوال اور جواب میں مذکور اعتراف کہ دروز کے ہر عقیدہ کی بنیاد کسی نہ کسی آیت یا حدیث پر ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ساری گفتگو جعلی ہے اور اگر اسے حقیقی بھی فرض کر لیا جائے تو مسلمانوں کا ہر