کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 273
اور یہ سب اللہ کی تقدیر کے مطابق تھا۔‘‘ دروزی نے سوال (۱۸) کا جواب دینے سے پہلو تہی کی ہے اور ’’اللہ اعلم‘‘ کہہ کر تقیہ کرلیا ہے جس طرح اس کی اور اس کی قوم کی یہ عادت ہے کہ غیروں سے اپنے مذہب کی حقیقت چھپالیتے ہیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہما کی خلافت خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے بعد ہونے کا ایک خود ساختہ فلسفہ بیان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ تینوں علی سے پہلے فوت ہوجائیں گے اس لئے ان کی خلافت علی سے پہلے کر دی تاکہ ہر کوئی امت کی خدمت میں اپنا کرداد ادا کرسکے، اس لئے اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ خلافت اس معروف تربیت سے واقع ہو۔ اس فلفسلہ میں اصل سوال کے جواب سے گریز کیا گیا ہے۔ سوال تو شرعی حکم کا تھا اس نے واقعاتی ترتیب کی حکمت بیان کردی۔ اس کے باوجود اس کا یہ جواب اس عقیدہ کے خلاف ہے جو وہ خلفائے ثلاثہ کے متعلق رکھتے ہیں کیونکہ وہ تو اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں اور علی کو معبود مانتے ہیں۔ لہٰذا یہ پورے کا پورا جواب تقیہ کا عملی نمونہ اور ہیرا پھیری پر مشتمل ہے اور اس کے بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کا حضرت علی رضی اللہ عنہما سے پہلے خلیفہ بننا ان کی فضیلت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ کی مرضی کے مطابق ایک تکوینی معاملہ تھا اور یہ تصور اس عقیدہ کے برعکس ہے جس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ سوال۱۹: ’’کیا تم لوگ ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کو ان کی خلافت کی ترتیب سے افضل مانتے ہو؟‘‘ جواب: ’’ہاں! لیکن اس کے باوجود ہم انہیں درجہ میں کسی سے افضل نہیں کہتے بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ علی ان سے اعلیٰ ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں خطبہ کے دن فرمایا تھا: (مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہ،اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ………) ’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘ دروزی کے اس سوال (۱۹) کے جواب میں تناقص پایا جاتا ہے اور تینوں خلفائے راشدین جناب ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا انکار بھی ہے۔ پہلے اس نے کہا : ’’ہاں‘‘ یعنی ہم خلفائے اربعہ کو ان کی خلافت کی ترتیب سے افضل ماتنے ہیں۔‘‘ پھر کہا: ’’ہم انہیں درجہ میں کسی سے افضل نہیں سمجھتے۔‘‘ اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں کائنات میں کسی ایک سے بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ پھر اس نے کہا علی رضی اللہ عنہ ان سب سے افضل ہیں (f) حالانکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہما نے حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو اپنے آپ سے افضل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ امت کا اجماع ہے کہ جناب ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جناب حضرت علی رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں۔ اور اکثر علماء کے نزدیک حضرت عثمان رضی اللہ عنہما بھی ان سے افضل ہیں۔ علی رضی اللہ عنہما کی فضیلت کی دلیل کے طور پر یہ حدیث ذکر کی گئی ہے: (مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہ،اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ………) ’’جس کا میں مولیٰ ہوں، اس کا علی بھی مولیٰ ہے۔ یا اللہ! جو اس سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس سے دشمنی رکھ۔‘‘ اس حدیث کے متعلق شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ فرمایا: ’’یہ روایت کہ جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کا مولیٰ ہے، حدث کی بنیادی کتابوں میں سے ترمذی کے سوا کسی میں نہیں ہے۔ وہاں بھی صرف اتنا ہی جملہ مروی ہے: (مَنْ کُنْتُ أَنَا مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ)