کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 271
سے (نکاح کرو) یا جو (لونڈیاں) تمہاری ملکیت ہیں (ان سے جائز تعلق قائم کرو۔)‘‘ اس آیت کا ابتدائی حصہ صاف طور پر ایک سے زیادہ بیویاں جائز ہونے کی دلیل ہے جب کہ ان کے ساتھ رہنے سہنے، سلوک ا ور خرچ وغیرہ میں ظلم ہوجانے کا خطرہ نہ ہو اور یہ چیز ممکن ہے اور مرد کے بس میں ہے۔ باقی رہا فرمان الٰہی: ﴿وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ﴾(النساء۴؍۱۲۹) ’’اور تم ہرگز عورتوں کے درمیان انصاف نہیں کرسکو گے، اگرچہ اس کی حرص کرو، تو (ایک عورت کی طرف سے) بالکل ہی کنارہ کش نہ ہوجاؤ کہ اسے اس طرح چھوڑ دو جس طرح (درمیان میں) لٹکی ہوئی (ہوتی ہے)۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کی محبت او رقلبی میلان میں عدل ممکن نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے ساتھ بردباری کے مطابق وقت گزارنے اور اخراجات مہیا کرنے میں عدل نہیں ہوسکتا۔ اس نکتہ کی وضاحت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات سے بھی فرمائی ہے اور عمل سے بھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد خواتین سے نکاح کیا اور ان کے درمیا رہن سہن اور اخراجات وغیرہ کے امور میں پوری طرح انصاف فرمایا۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! جو کچھ میرے بس میں ہے اس میں تو میں نے یہ تقسیم کر دی ہے اور جو چیز تیرے قبضے میں ہے، میرے قبضے میں نہیں، اس میں مجھے ملامت نہ فرمانا۔‘‘ متعدد بیویاں کرنے کے جواز پر صحابہ کا اجماع ہے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا، حالانکہ قرآن مجید ان کی زبانوں میں نازل ہوا تھا اور وہ لوگ اس دروزی اور اس جیسے دوسرے خواہش پرستوں سے زیادہ قرآن مجید کو سمجھتے تھے۔ جبکہ یہ تو نصاریٰ اور ملحدین کے ہم قدم چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور بزعم خوش صنف نازک کو راضی رکھنا چاہتے ہیں۔ دروزی نے چوتھی آیت کے الفاظ میں تحریف کی ہے۔ صحیح آیت اس طرح ہیں: وَ لَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَ لَوْ حَرَصْتُمْ اس نے آیت میں اپنے پاس سے الفاظ شامل کردئے ہیں۔ سوال۱۶: ’’کیا تمہارے نزدیک اطلاق جائز ہے۔‘‘ جواب: ’’ہاں جائز اسباب کی بنا پر طلاق جائز ہے۔ البتہ جو شخص کسی جائز سبب کے بغیر یا مطلقہ کی رضا مندی کے بغیر طلاق دیتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی تمام املاک اور مال ودولت کا نصف پیش کرے۔ لیکن اگر طلاق عورت کے کسی جرم کی وجہ سے ہوئی ہے تو پھر عورت اپنی آدھی جائیداد اور دولت مرد کو ادا کرے گی۔‘‘ اس سوال کے جواب میں دروزی نے طلاق کو جائز تسلیم کیا ہے لیکن جائز اسلوب کی شرط لگائی ہے۔ لیکن چونکہ دروز کا اصول ہے کہ تقیہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے مذہب کی اصل حقیقت کو پوشیدہ رکھا جائے اور مخالفین سے بات کرتے ہوئے وہ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے وہ اسی اصول پر عمل کرتے ہیں، اس لئے یہاں بھی اس نے ان ’’جائز اسباب‘‘ کی وضاحت نہیں کی۔ پھر اس پر ایک اور گل کھلایا ہے کہ اپنے دل سے شریعت سازی کرتے ہوئے خاوند کو حک دے دیا کہ اگر اس نے باہمی رضا مندی کے بغیر جائز سبب کے بغیر طلاق دی تو بیوی کو آدھی جائیداد دے اور عورت پر بھی یہ واجب کردیا ہے کہ ا سکی کسی غلطی کی وجہ سے طلاق ہو تو وہ اپنی آدھی جائیداد خاوند کو دے۔ اسلام میں طلاق کے موقع پر خاوند اور بیوی کے جو حقوق رکھے گئے ہیں، یہ قانون کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے اور اس طرح اس بات کی تردید کرتا ہے جو پہلے سوال کے جواب میں کہی گئی کہ ’’ہمارا دین اسلام ہے۔‘‘ سوال۱۷: ’’سناہے کہ آپ تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں؟ آپ کے اس عقیدہ کی بنیاد کیا ہے؟