کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 269
جب اس نے وصیت چھوڑی ہو تو وراثت اس وصیت کے مطابق تقسیم ہوگی۔ کیونکہ ہمارے ہاں وصیت فرض ہے اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ تاکہ آیت مبارکہ: ﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ (النساء۴؍۱۱) ’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے، مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے اور اس آیت پر عمل کرتے ہوئے کہ بعد وصیۃ یوصی بھا أودین وصیت جو کی گئی ہو اس کے بعد اور قرض کے بعد۔‘‘ سوال:۱۳ ’’آپ کے ہاں وصیت کا کیا طریقہ ہے؟‘‘ جواب: ’’صیت کاطریقہ ہے کہ انسان کو اپنے مال میں جس کے لئے چاہے وصیت کرنے کا پورا پورا حق ہے خواہ کوئی رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔‘‘ سوال۱۴: ’’اہل سنت لے مذہب میں تو وارث کے لئے وصیت کرنا منع ہے، پھرآپ کیوں وارث کے وصیت کرتے ہیں۔‘‘ جواب: ’’ہم وارث کے کلئے وصیت کرکے اس آیت مبارکہ پر عمل کرتے ہیں: ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَ کُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (البقرہ۲؍۱۸۰) ’’جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو اگر اس نے مال چھوڑا ہے تو (اس پر) والدین اور اقارب کے لئے وصیت کرنا فرض کردیا گیا ہے۔‘‘ اس آیت شریفہ سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ وصیت وارث اور غیر وارث سب کے لے جائز ہے اور ہم اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں۔ دروزی نے ان تین سوالوں کے جواب میں کہا ہے کہ ان کے ہاں وصیت شرعی فریضہ کے مطابق ہے لیکن اس کی تعین کسی وارث یا غیر وارث کے لئے سارے مال کی وصیت کر کے جائے تو ترکہ کی تقسیم میں وصیت کا اعتبار کیا جائے گا (شرعی اصولوں کا نہیں) حالانکہ شریعت نے اس کے برعکس صاف الفاظ میں یہ حکم دیا ہے کہ وارث کے لئے وصیت جائز نہیں اور اس مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سوال کے جواب میں اس نے جھوٹ بولا ہے کہ دروز کا دین اسلام ہے۔ آیت مبارکہ: یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ … اور اس کے بعد والی آیت میں میراث کے شرعی طور پر مقرر حصوں کا بیان ہے اور مختلف وارثوں کے حصے تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور اس آیت میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی اس مقررہ حد سے تجاوز نہ کیا جائے جو اللہ نے ہر وارث کے لے مقرر کردی ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ اختیار باقی نہیں چھوڑ گیا کہ مذکورہ دو آیتوں کے مذکور واثوں کے متعلق وصیت کرنیں، نہ ہر وارث کے لئے مقرر حصہ میں ہمیں اختیار دیا گیا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے وارثوں کی قسمیں بیان کی ہیں اور ہر قسم کے وارث کا حصہ بیان کر دیا ہے اور ہمارے لئے اس پر عمل کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے ان آیات میں یہ بھی بتایا ہے کہ ترکہ وارثوں میں تقسیم کرنے سے پہلے میت کے ذمہ جو قرض ہے، وہ ادا کیا جائے گا اور ایک تہائی مال کی حد تک اس نے غیر وارث افراد کے لئے جو وصیت کی ہے اس پر عمل کیا جائے۔ جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمادی ہے۔ لہٰذا دروزی نے ان دو آیتوں سے استدلال کرنے میں اجمال اور تلبیس سے کام لیا ہے اور ترکہ کی تقسیم میں وصیت سے جو مراد ہے اس کی غلط تشریح کی ہے اور تقسیم سے قبل