کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 264
کہ جب روح خواہشات نفسانی سے پرہیز اور علم وعبادت کے ذریعے صاف ہوجاتی ہے تو وہ اپنے اصلی گھر کی طرف لوٹ آتی ہے موت کے ذریعہ اسے کمال حاصل ہوتا ہے اور وہ بدن کے قیدوبند سے آزاد ہوجاتی ہے۔ البتہ جو روحیں ترقی نہیں کرسکتیں کیونکہ انہیں آئمہ معصومین سے ہدایت طلب نہیں کی‘ بلکہ ان سے دور رہیں، انہیں جسموں میں باقی رکھ کر عذاب دیا جاتا ہے۔ وہ ایک سے دوسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ جب کوئی ایسی روح مر کر ای ک جسم سے نکلتی ہے تو دوسرا جسم اسے لے لیتا ہے۔ اس کے لیے وہ مذکورہ بالا دلائل کے علاوہ اس آیت کریمہ سے بھی استدلال کرتے ہیں: ﴿کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًاغَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ﴾ (النساء۴؍۵۶) ’’جب بھی ان کی کھالیں جل جائیں گی ہم تبدیل کر کے انہیں دوسری کھالیں دے دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔‘‘ قیامت سے امام کا ظہور مراد لینا کلام اللہ میں واضح تحریف ہے۔ اس طرح انہوں نے قرآن کے الفاظ کو عربی زبان کے اصل مفہوم سے الگ کردیا ہے، حالانکہ قرآن اہل عرب کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ یہ تاویل قرآن مجید کیدوسری آیات کی صراحتاً مخالف ہے اور بے شمار صریح متواتر احادیث کے خَاف ہے جن میں قبروں سے زندہ ہو کر اٹھنا، حساب و کتاب‘ جزاوسزا اور جنت جہنم کا بیان ہے۔ لہٰذا ان کی یہ تاویل صریح گمراہی اور صریح کفر ہے اور ان کا عقیدہ جس کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے کہ روحیں اپنے بدن تبدیل کرتی رہتی ہیں (عقیدۂ تناسخ)‘ محض وہم وگمان پر مبنی ایک خیال ہے جس کی کوئی عقلی بنیاد نہیں، نہ اس کی تائید کسی نقلی دلیل سے ہوتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عقیدہ قرآن سے ثابت ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ قرآن مجید کی آیت مبارکہ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ… (تم بے جان تھے، پھر اس نے تمہیں زندگی بخشی) کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ نے ماؤں کے پیٹوں میں تمہاری صورت ابھی نہیں بنائی تھی اور تمہارے اندر روح نہیں ڈالی تھی اس وقت تم مردہ تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے جسم میں روح ڈال کر تمہیں زندہ کیا۔ پھر جب تمہاری دنیا میں رہنے کی مقررہ مدت ختم ہوجائے گی تو تمہاری روحیں قبض کرکے تمہیں فوت کرلے گا، قیامت کے دن تمہارا حساب کرنے اور تمہیں جزا دینے کے لیے دوبارہ زندہ کرے گا۔ عرب کی جس زبان میں قرآن نازل ہوا ہے، اس کے مطابق تو اس کا صاف صریح مطلب یہی ہے۔ اور صحیح صریح احادیث سے بھی اس کی یہی وضاحت سامنے آتی ہے، اس سے کسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب انسان مرتا ہے اور اس کی روح اس کے جسم سے نکل جاتی ہے تو پھر اسے کسی اور جسم میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ وہ دوبارہ پیدا ہو کر اسی دنیا میں زندگی گزارے۔ اسی طرح دوسری آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی﴾ (طہ۲۰؍۵۵) ’’ہم نے اسی (زمین) سے پیدا کیا، اسی میں تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔‘‘ اس کا مطلب بھی واضح ہے کہ ہم نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے۔ پھر تمہیں اس دنیا میں زندگی گزاررہے ہو، ھھر تم اسی زمین کی طرف لوٹ جاؤگے یعنی جب تم مروگے تو اس میں دفن ہوگ‘ اس کے بعد جب دوبارہ زندہ ہونے کا وقت آئے گا اور قیامت قائم ہوگی تو ہم تمہیں اسی زمین سے ۔کدہ کر کے نکال لیں گے۔ ان آیتوں سے تناسخ کا عقیدہ کشید کرنے کی کوشش