کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 26
وہ کہتے تھے ’’فلاں شخص کو زانے کی چوٹیں پڑیں اور فلاں قبیلے کوزمانے نے تباہ کردیا۔‘‘ چونکہ وہ مصائب کو زمانے کی طرف منسوب کرتے تھے، لہٰذا وہ ان حوادث کو فاعل کو برا بھلا کہتے تھے۔ اس طرح وہ گالی اصل میں اللہ تعالیٰ کو دی جاتی تھی، کیونکہ ان واقعات کا فاعل حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہے (نہ کہ زمانہ جسے وہ اپنے خیال میں مصیبت کا سبب قرار دے رہے تھے)۔ اس لئے انہیں زمانے کو گالی دینے سے منع کردیاگیا۔‘‘
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
٭٭٭
فتویٰ (۸۴۸۷)
عریاں لباس پہننے کی مذمت
سوال کیا عریاں لباس پہننے والی عورتوں کو کافر سمجھنا درست ہے کیونکہ ارشاد نبوی ہے:
(لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یَجِدْنَ رِیْحَھَا......)
’’وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی، نہ اس کی خوشبو پائیں گی۔‘‘
جواب الْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ:
جس شخص کو مسئلہ سمجھا دیا جائے اور شرعی حکم واضح کر دیا جائے، پھر بھی وہ عورتوں کے لئے اس قسم کا لباس پہننا جائز سمجھے جو عریانی کے ضمن میں آتا ہے ایسا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ لیکن جو عورت اس حرکت کو جائز نہیں سمجھتی (گناہ سمجھتی ہے) پھر بھی عریابی لباس پہن کر باہر آتی ہے، وہ کاورہ تو نہیں البتہ ایک کبیرہ (بہت بڑے) گناہ کی مرتکب ضرور ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اس گناہ کو چھوڑدے اور توبہ کرے۔ اس صورت میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیں گے۔ لیکن اگر وہ توبہ کئے بغیر مر گئی تو وہ دوسرے گناہوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے معاف کرے، چاہے تو نہ کرے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآء﴾ (النساء۴/ ۴۸)
’’اللہ تعالیٰ (یہ جرم) معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو )شریک بنایا جائے، اس کے علاوہ (دوسرے گناہ) جس کے چاہتاہے معاف کردیتاہے۔‘‘
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ
اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز
٭٭٭
فتویٰ (۲۲۰۴)
اجتہادی وفروعی مسائل کی بنا پر کفرکا فتویٰ لگانا
سوال ترکی میں ہمارے مسلمان بھائیوں میں اس حدیث کے متعلق اختلاف ہوگیا ہے۔
(مَنْ حََلَّلَ حَرَاماً أَوْ حَرَّمَ حَلَالاً فَقَدْ کَفَرَ)
’’جس نے حرام کو حلال سمجھا یا حلال کو حرام سمجھا، اس نے کفر کیا‘‘