کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 258
یہ امور ہر اس شخص کے سامنے واضح ہیں جو ان کی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے اور ان کی سیرت اس دن سے جانتا ہے جب عبداللہ بن سباحمیری یہودی نے ان کے اصولوں کی بنیاد رکھی اور ان کا بیج بویا تھا۔ اس کے بعد ہر دور میں وہ انہیں اصولوں کے قائل رہے۔ چھوٹوں نے بڑوں سے یہی کچھ سیکھا اور اپنے بعد والوں کو اسی کی تلقین کی اور ان پر پختگی سے عمل پیرا رہے۔ آج تک ان کی کیفیت یہی ہے۔ دروز اگرچہ باطنی قرامطی فرقہ کی ایک شاخ ہے تاہم ان کی نسبت‘ زمانۂ ظہور اور حالات کے لحاظ سے جن میں یہ ظاہر ہوئے، ان کی بعض خاص علامات اور مظاہر بھی ہیں۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ اس پہلو کو واضح کیا جاتا ہے اور اس کی مثالیں اور علمائے کرام کا ان کے متعلق فیصلہ پیش خدمت ہے۔ (۱) دروز کی نسبت ’’درزی‘‘ کی طرف ہے۔ اس شخص کا پورا نام عبداللہ محمد بن اسماعیل درزی ہے۔ اس کا نام عبداللہ درزی اور درزی بن محمد بھی نقل کیا گیا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ محمد بن اسماعیل درزی کا نام تشتگین یا ہشتگین درزی بھی ہے۔ ایک قول کے مطابق ان کا تعلق فارس کے ایک شہر طیروز سے ہے۔ زبیدی نے ’’تاج‘‘ میں کہا ہے کہ درزی کے لفظ کو ’’دال‘‘ کے زبر سے پڑھنا درست ہے اور یہ نسبت ’’درزہ‘‘ کی اولاد کی طرف ہے۔ جس کا مطلب ہے کپڑا بننے والے، کپڑا سینے والے اور دوسرے ادنیٰ طبقہ کے لوگ۔ (۲) محمد بن اسماعیل درزی ایک عبیدی باشاہ الحاکم بامرہ ابو علی منصور بن عزیز کے زمانے میں ظہور ہوا۔ عبیدی خاندان کے مصر پر تقریباً دو سال حکومت کی ہے۔ یہ لوگ اہل بیت سے تعلق رکھنے کے مدعی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ حضرت فاطمہ حفظہ اللہ کی اولاد سے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ جھوٹ تھا۔ محمد بن اسماعیل درزی پہلے اسماعیلی باطنی فرقہ سے تعلق رکھتا تھا جو محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق کے پیرو کہلاتے ہیں۔ پھر وہ اس فرقہ سے الگ ہو کر عبیدی حاکم سے جاملا اور اس کے دعویٰ الوہیت کی تائید کرنے لگا۔ اس نے لوگوں کو حاکم کی عبادت کری طرف بلانا شروع کر دیا۔ اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہما میں حلول کر گیا ہے اور ا س نے علی رضی اللہ عنہما کی ناسوت کا لباس پہن لیا ہے اور علی رضی اللہ عنہما کی روح ان کی نسل میں یکے بعد دیگرے منتقل ہوتے ہوتے حاکم تک پہنچ گئی ہے۔ (اس طرح حاکم میں علی رضی اللہ عنہما کی روح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی الوہیت بھی حلول کر گئی ہے)۔ حاکم نے مصر میں تمام اختیارات درزی کو دے دیئے تاکہ لوگ اس کے دعویٰ کو تسلیم کرکے اس کی اطاعت کریں۔ جب اس کی حقیقت کھلی تو مصر میں مسلمان ا س کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے بہت سے ساتھیوں کو قتل کردیا۔ جب اسے قتل کرنا چاہا تو وہ بھاگ کر حاکم کے پاس جا چھپا۔ اس نے اسے مال ودولت دے کر شام بھیج دیا تاکہ وہاں اپنا مذہب پھیلائے۔ وہ شام پہنچ کر دمشق کے مغرب میں تیم اللہ بن تعلبہ کی وادی میں ٹھہرا اور انہیں حاکم کی الوہیت پر ایمان لانے کو کہا، وہاں اس نے لوگوں کو خوب مال دیا اور درزی مذہب کے عقائد پھیلانے شروع کردئے چنانچہ لوگوں نے اس کا مذہب قبول کر لیا۔ حاکم کی خدائی ہی کو تبلیغ کے لے ایک اور فارسی شخص بھی اٹھا، اس کا نام حمزہ بن علی احمد حاکمی درزی ہے۔ وہ باطنیہ کے بڑے لیڈروں میں سے تھا۔ اس نے حاکم کی پارٹی کی خفیہ دعوت کے افراد سے رابطہ قائم کیا۔ ہوتے ہوتے وہ اس تنظیم کے مرکزی افراد میں شمار ہونے لگا۔ پہلے وہ چوری چھپے حاکم کی الوہیت کا عقیدہ پھیلاتا رہا، بعد میں اعلانیہ اس عقیدہ کی دعوت دینے لگا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ حاکم کا رسول ہے۔ حاکم نے اس دعویٰ میں ا س کی تائید