کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 256
(۱۴) خود کو صحیح اہل سنت اور صحیح عقیدہ کے حامل سمجھتے ہیں اور دوسروں کو غلطی پر سمجھتے ہیں۔ (۵) ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ واضح رہے کہ میں کراچی میں طب (ڈاکٹری) کی تعلیم حاصل کررہا ہوں اور میری رہائش ایک مسجد کے قریب ہے جس پر ایک بریلوی جماعت کا کنٹرول ہے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: جس شخص کے یہی حالات ہوں اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے اور اگر کوئی نمازی اسی حالت سے واقف ہونے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح نہیں۔ کیونکہ سوال میں مذکورہ امور میں سے اکثر کفریہ اور بدعیہ ہیں، جو اس توحید کے خلاف ہیں جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور جو اس نے اپنی کتابوں میں بیان فرمائی۔ مذکورہ عقائدواعمال قرآن مجید سے صاف طور پر ٹکراتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ﴾ (الزمر۳۹؍۳۰) ’’(اے نبی!) آپ بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلَّہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا﴾ (الجن۷۲؍۱۸) ’’بلاشبہ مسجدیں اللہ کی ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔‘‘ یہ لوگ جو بدعتیں کرتے ہیں، انہیں ان سے احسن انداز سے منع کرنا چاہئے۔ اگر وہ لوگ مان جائیں تو الحمد للہ،ورنہ انہیں چھوڑ کر اہل سنت کی مسجدوں میں نماز پڑھنی جائے۔ جناب خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کا یہ فرمان ایک اچھا اسوہ پیش کرتاہے: ﴿وَ اَعْتَزِلُکُمْ وَ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ عَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَآئِ رَبِّیْ شَقِیًّا﴾ (مریم۱۹؍۴۸) ’’میں تم سے الگ ہوجاؤں گا اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو (ان سے بھی دور رہوں گا) اور اپنے رب کو پکارو ں گا۔ امید ہے کہ اپنے رب کو پکار کر میں بدنصیب نہیں رہوں گا۔‘‘ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭