کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 249
سوال وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وقف کی تمام املاک کلیتاً اس کی ملکیت‘ اس سے تمام صدقات کے متعلق کوئی محاسبہ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح ان کے سابقہ پیر سیدنا طاہر سیف الدین (آنجہانی) نے بمبئی ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ میں بیان دیا تھا کہ اسے اپنے مریدوں پر کلی اختیار حاصل ہے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: سوال میں بوہرہ فرقہ کے بڑے پیشوا کے جو دعوے ذکر کئے گئے ہیں کہ وہ وقف املاک کاکلی مالک ہے اور تمام صدقات کے متعلق کسی محاسبہ سے بالاتر ہے اور وہ زمین میں اللہ ہے۔ یہ سب جھوٹے دعوے ہیں، خواہ اس قسم کے دعوے یہ شخص کرے یا کوئی اور شخص۔ پہلا دعویٰ اس لئے غلط ہے کہ وقف چیز کسی کی ملکیت نہیں بن سکتی۔ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے فائدہ اٹھانے کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ (بلکہ) وہ آمدنی ان مصارف میں خرچ نہیں کی جائیگی۔ جو وقف کرتے ہوئے متعین کئے گئے ہیں، نہ کسی اور میں۔ لہٰذا بوہرہ فرقہ کا پیشوا کسی وقف کا مالک نہیں بن سکتا؟ نہ ا س کی آمدنی میں سے کسی چیز کا مالک بن سکتاہے سوائے اس آمدنی کے جو صرف اس کے لئے وقف کی گئی ہو بشرطیکہ وہ اس کا مستحق ہو۔ دوسرا دعویٰ کہ اس کا محاسبہ نہیں ہوسکتا یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ قرآن وحدیث کی نصوص اور اجماع امت کی روشنی میں ہر شخص کا اس کے تمام اعمال میں محاسبہ کیا جاسکتا ہے۔ خواہ وہ صدقات وغیرہ میں تصرف ہو یا کوئی اور عمل۔ تیسرا دعویٰ (نعوذ باللّٰه من ذالک) کہ وہ زمین موجود اللہ ہے، یہ واضح طور پر کفر ہے۔ جو شخص اس قسم کا دعویٰ کرے وہ طاغوت ہے جو اپنی الوہیت اور عبادت کی طرف بلاتا ہے۔ اس کا باطل ہونا اور دین اسلام کے خلاف ہونا اتنا بدیہی ہے کہ دلائل ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ سوال وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جو لوگ اس کے اعمال پر اعتراض کرتے ہیں اسے حق حاصل ہے کہ ان کے سوشل بائیکاٹ کا اعلان کردے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: اگر بوہر فرقہ کے بڑے پیشوا کی کیفیت یہی ہے جو مذکورہ بالا سوالات میں بیان کی گئی تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے شرکیہ اعمال پر اعتراض کرنے والوں کا بائیکاٹ کرے بلکہ اس کا فرض ہے کہ ان کی نصیحت قبول کرے اور اپنی الوہیت کے دعویٰ سے اور ان اوصاف سے متصف ہونے کے دعوے سے توبہ کرے جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ مثلاً روح اور دل کا مالک ہونا اور اپنی عبادت کی دعوت دینا اور انہیں اپنے لئے اور اپنے خاندان کے افراد کے لئے غلو کی حد تک عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کا حکم دینا بلکہ جو لوگ اس کے طرح طرح کے کفر پر اعتراض کرتے ہیں ان کا بھی فرض ہے کہ اگر وہ ان کی نصیحت قبول نہ کرے اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہ کرے تو اس سے، اس کی گمراہی سے اور اس کی ضلالت سے بیزاری کا اظہار کریں اور اس کے متبعین سے، اور اس جیسے دوسرے طاغوتوں اور طاغوت سے بھی برأت ظاہر کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا﴾ (آل عمران۳؍۱۰۳) ’’اللہ کی رسی کو تم سب ملک کر مضبوطی سے پکڑ لو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب۳۳؍۲۱)