کتاب: فتاوی ابن باز(جلد 2) - صفحہ 243
خیال میں صحیح اور ضعیف روایات میں امتیاز کرتے ہیں۔ جن میں سے ایک اصول یہ ہے کہ وہ ان بارہ اماموں کے اقوال کی طرف رجوع کرتے ہیں جنہیں وہ معصوم قرار دیتے ہیں۔ پھر انہیں قرآن مجید اور صحیح سنت کا علم کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ اور وہ شریعت کے پختہ اصول واحکام کہاں سے معلوم کرسکتے ہیں جن کو وہ اپنی ایرانی قوم پر نافذ کرسکتے ہیں جن پر وہ حکومت کررہے ہیں۔ ان حقائق کی موجودگی میں یہ کس طرح کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ خمینی کے علاوہ کوئی مسلمان سربراہ مملکت موجود نہیں۔ جبکہ خمینی نے اپنی کتاب ’’حکومت اسلامیہ‘‘ میں صفحہ ۵۲پر ’’ولایت تکوینی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے ’’ائمہ کرام کو مقام محمود‘ درجۂ بلند اور اخلاقیات تکوینی حاصل ہے، ان کی حکومت اور اقتدار کائنات کے ہر ذرے پر قائم ہے اور ہمارے مذہب کے بنیادی عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ ہمارے ائمہ کو ایسا مقام حاصل ہے جس تک نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچ سکتا ہے، نہ کوئی نبی اور رسول۔‘‘ اور یہ واضح جھوٹ اور کھلا بہتان ہے۔ ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں: ’’مختصر تحفہ اثنا عشریہ‘‘ از علامہ محمود شکری آلوسی ’’الخطوط العریضہ‘‘ از محب الدین خطیب‘ ’’منہاج السنۃ النبویہ فی نقض کلام الشیعہ والقدریہ‘‘ از علامہ شیخ احمد بن عبدالحکیم ابن تیمیہ اور ’’المتقی من منہاج السنۃ‘‘ از ذہبی۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭